(ویب ڈیسک)ہر مرد اور عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ شادی کرے،شادی بھی ایسے شخص سے ہو جو اس کا پسندیدہ ہو،شادی کا دن انسان کی زندگی کا یاد گارہوتا ہے،آبادی کے زیادہ ہونے اور معاشی مشکلات کے باعث آج کل یہ شادی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔بھارت میں کنوارے سراپا احتجاج بن گئے۔
گذشتہ ماہ بھارتی ریاست کرناٹک میں مردوں کے ایک گروہ نے ایک جلوس کی شکل میں 120 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا تاکہ وہ ایک خاص مندر پر جا کر دعا کر سکیں کہ انھیں بیویاں مل جائیں۔اس انوکھے مارچ میں حصہ لینے والے مردوں کا انٹرنیٹ پر مذاق اڑایا گیا، لیکن سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ مارچ دراصل ایک ایسے سماجی اور معاشرتی مسئلے کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کا سامنا اس خطے کو ایک عرصے سے ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ مارچ شروع تو 30 مردوں نے کیا تھا لیکن جب جلوس مندر تک پہنچا تو اس کے شرکاء کی تعداد 60 ہو چکی تھی۔ ان مردوں میں اکثریت کا تعلق ریاست کرناٹک کے ضلع مانڈیا سے تھا۔اس ضلع میں پیدائش کے وقت لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب کئی عشروں سے غیر متوازن رہا ہے اور سماجی کارکنوں کے مطابق یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ یہاں مردوں کو شادی کے لیے لڑکی تلاش کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس علاقے میں زرعی آمدن دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور پچھلی نسلوں کی نسبت آج کل کی خواتین کی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں۔مارچ میں حصہ لینے والے ایک غیر شادی شدہ 33 سالہ شخص مالیشا ڈی پی کا کہنا ہے کہ جب مجھے کسی سے محبت کرنی چاہیے تھی، میں اس وقت کام میں مصروف تھا۔ (اس دوران) میں نے پیسہ کما لیا اور اب جبکہ میری زندگی میں ہر چیز موجود ہے، مجھے شادی کے لیے کوئی لڑکی نہیں مل رہی۔
مانڈیا کا علاقہ زرخیز ہے اور یہاں آبپاشی کا نظام بھی اچھا ہے۔ یہاں کی بڑی فصلوں میں سے ایک گنّا ہے لیکن چونکہ کھیتوں سے آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے اس لیے اس لیے زراعت اب یہاں زیادہ پرکشش پیشہ نہیں رہا ہے۔مالیشا بتاتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں تقریباً 30 خواتین ان سے شادی سے انکار کر چکی ہیں۔ ان خواتین نے انکار کی وجہ یہ بتائی کہ مالیشا کا پیشہ ٹھیک نہیں ہے اور وہ دیہات میں رہتے ہیں۔
ضرور پڑھیں :کس ملک کا پاسپورٹ کتنا طاقتور ہے؟
نیگریواکا بتاتی ہیں کہ اب بھی بچوں کی ایک قریبی نرسری میں، آپ کو 80 لڑکے ملیں گے اور 20 لڑکیاں۔ریاست میں آخری مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق ضلع مانڈیا میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب مزید خراب ہو گیا ہے، کیونکہ سنہ 2011 میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں 960 لڑکیاں پیدا ہو رہی تھیں جبکہ سنہ 2001 میں یہ تناسب ایک ہزار لڑکے اور 971 لڑکیاں ہوا کرتا تھا۔
مالیشا کے بقول ’یہ ایک مشکل پیدل سفر تھا۔ ہم نے دعا کی ہے کہ جلد ہی ہم سب کی شادیاں ہو جائیں۔‘