سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح ان جیسا کوئی اور جج بھی اس منصب پر فائز ہوتا یہی کچھ ہوتا جو ہماری حالیہ عدالتی تاریخ میں ہوا ہے۔ ثاقب نثار اس لئے زیادہ بلکہ سب سے زیادہ متنازع ہوگئے کہ انہوں نے ڈائیلاگ بازی میں بھی اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔ یہ امر بھی زیادہ حیران کن نہیں کہ ثاقب نثار اب بھی لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض حمید سے مشاورت کا عمل جاری رکھ کر سپریم کورٹ میں موجود اپنے جانشینوں کے ذریعے ملک میں بحران پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے کچھ عرصہ پہلے تک اس حوالے سے بڑی حد تک غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا لیکن جب یہ محسوس کیا گیا کہ سابق چیف جسٹس اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی ان حرکتوں کو محدود کرنا ضروری ہوگیا ہے تو کچھ اقدامات کیے گئے۔
ثاقب نثار کی پوزیشن اس لیے زیادہ کمزور ہے کہ وہ موجودہ عدلیہ میں اپنے ہم خیالوں کے ذریعے جس ساز باز کے ذریعے حکومت کو کمزور کرنے اور عمران خان کو غیر معمولی رعائتیں دلوانے پر لگے رہے اس کے آڈیو، ویڈیو ثبوت تیار ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہی مواد ثاقب نثار اور ان کے ہم خیال ساتھیوں تک پہنچا دیا گیا۔ یہ پہلی وارننگ ہے اس کے بعد تمام شواہد کو پبلک کرکے سخت کارروائی کرنے کا آپشن محفوظ رکھا گیا۔ ویسے بھی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے کاموں کیلئے ایسے ہی ججوں کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوچا جارہا ہوگا کہ تنبیہہ یا پھر ایک آدھ کے خلاف برطرفی کی کارروائی کے بعد باقی ”عدالتی اثاثے“ بچا لیے جائیں۔ بہر حال اب جب ثاقب نثار گھبرائے ہوئے انداز میں سامنے آئے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑے جاچکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے فیس سیونگ کا جو بہانہ تراشا کہ ان کا وٹس ایپ ہیک ہوگیا ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اب وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو مکمل طور صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ جس کیس میں قرار دیا تھا اس میں بھی کوئی گواہ تھا نہ کوئی مصدقہ دستاویز بلکہ انہیں کہا گیا تھا کہ آپ نے ایسا کرنا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ارشاد کی تعمیل کردی۔
ضرور پڑھیں :نشئی کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے !!
ثاقب نثار، کھوسہ اور گلزار نوکریوں سے تو چلے گئے مگر ان سب نے 20 سالہ ہائبرڈ عمرانی حکومت برقرار رکھنے کے لیے عدالتوں میں جو بیج بوئے تھے وہ تناور درخت بن چکے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا پراجیکٹ عمران کی طرح ثاقب نثار بھی ایک پراجیکٹ ہی تھا جس کے تحت عدلیہ کے ذریعے حکومتوں کے اوپر ایک اوپر حکومت قائم کرنے کا مستقل بندوبست کرنا تھا۔ جس طرح پراجیکٹ عمران کے ذریعے دوسری تمام سیاسی جماعتوں کو بند گلی میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی اسی طرح پراجیکٹ ثاقب نثار کے ذریعے عدلیہ میں آزادانہ طور پر منصفانہ فیصلے دینے والے قابل ججوں کے لیے زمین تنگ کرنا تھی۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اسی پراجیکٹ کے تحت نشانہ بنایا گیا۔ پھر جسٹس قاضی عیسیٰ پر مسلسل حملے کیے گئے مگر ان کے خلاف تمام سازشیں ناکام ہوگئیں۔ ایک ہی طرح کے بینچ سے ایک ہی طرح کے فیصلے آنے پر عوامی اضطراب اتنا بڑھا کہ آج موجودہ چیف جسٹس سمیت ہم خیال جج صاحبان بھی موضوع بحث ہیں۔ سیاسی اور عوامی ہی نہیں قانونی حلقوں میں بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ ایک جج کے خلاف اتنا ٹھوس ریفرنس آچکا کہ ماہرین کے مطابق اگر ریفرنس سماعت کے لیے لگ گیا تو بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں۔
سابق سی سی پی او لاہور کےکیس حوالے آڈیو لیک پھر ویسا ہی فیصلہ آنے کے بعد بینچ فکسنگ والے اعتراض پر توجہ نہ دینے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ گئی۔توقع تو یہی کی جارہی ہے کہ ثاقب نثار کی آہ وبکا کے بعد موجودہ عدالتی ماحول پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑے گا۔ نہیں معلوم کہ ثاقب نثار کے خلاف کوئی قانونی ایکشن ہوگا یا نہیں لیکن ان کا کیس بہت سادہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے براہ راست مارشل لا لگائے بغیر کچھ وقت کے لیے نیم جمہوری حکومتوں کو موقع دیا۔ پھر طویل غور و فکر کے بعد ہائبرڈ سسٹم لانے کا منصوبہ بنایا۔ 2014 کے دھرنوں میں جاوید ہاشمی کے ذریعے یہ بات پوری دنیا کے سامنے آگئی تھی کہ منتخب حکومت کا خاتمہ ججوں کے ذریعے کرایا جائے گا، بالکل ایسا ہی ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ہائبرڈ نظام کا عمرانی تجربہ سب سے زیادہ برے طریقے سے پٹ گیا اور اس کے بعد سے آج تک آپس میں ہی سر پھٹول جاری ہے۔ اس حوالے سے تین نام ہی سب کے سامنے ہیں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ،فیض حمید اور ثاقب نثار جن سے پوچھا جانا چاہیے کہ آپ نے اس ملک کے ساتھ آخر کیا کیا ہے؟ ثاقب نثار سے تھوڑی سی سختی کے ساتھ تفتیش کی جائے تو فوراً باجوہ اور فیض کے نام دیں گے۔
پاکستان میں آج تک ججوں اور جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوا۔ اسی لیے قوم کو ان کے جانشینوں کی صورت میں پھر ایسے ہی کرداروں کا عذاب بھگتنا پڑتا ہے۔ ثاقب نثار کے حوالے سے جو چیز ثابت ہونے کی اطلاعات ہیں وہ اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ وہ اپنے ہم خیالوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی پچھلی لیڈر شپ والی پالیسی کو لاگو کرنے کے لیے بہت متحرک کردار ادا کررہے ہیں۔ ثاقب نثار نے خود کو بے نقاب ہوتے دیکھ کر ویسے تو کہہ دیا ہے کہ اب میں کسی کو انٹرویو نہیں دوں گا اور یہ کہ میرے مرنے کے بعد کتاب شائع ہوگی جس میں تمام حقائق ہوں گے۔کمال ہے جو اپنی زندگی میں سچ نہیں بول سکتا اسکی کتاب مرنے کے بعد آئے گی تو اس میں کتنی حقیقت ہوگی؟ اس کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت اور قانونی برادری نے عدلیہ کو آئین و قانون شکنی کے لیے بری طرح استعمال کرنے پر حساب نہ لیا تو سلسلہ ایک ثاقب نثار تک نہیں رکے گا بلکہ آنے والے برسوں میں کئی اور ثاقب نثار بھی پیدا ہوتے رہیں گے (ویسے وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے اس حوالے کافی کام کرکے گئے ہیں)۔ یہ تاثر بھی مکمل طور درست نہیں کہ ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ اگر پچھلے دنوں تک فیض حمید، ثاقب نثار کے ذریعے عدلیہ کو چلا رہے تھے تو جاننا ہوگا کہ فیض حمید کے پیچھے کون ہے؟ اب یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہو جانے کے سبب باقی ادارے خصوصاً عدلیہ آٹو پر لگ گئے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اگلا پلان کسی کو سمجھ نہیں آرہا۔ اسی لیے اکثر سٹیک ہولڈر کنفیوژ ہیں۔ ایسی ہی ایک کنفوژن عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے ہے۔ یا تو عمران خان کو مسلسل بھگائے رکھنے کی پالیسی جان بوجھ کر اختیار کی گئی یا پھر اب بھی انہیں بطور اثاثے بچا کر رکھنے کا منصوبہ ہے۔ ایسا سوچنا بھی حماقت ہے کہ ریاستی مشینری عمران خان کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتی یا ان سے خائف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے حقیقی مالکان نے جب بھی طے کرلیا کر یہ گرفتاری کرنی ہے تو دیر نہیں لگے گی۔
یہ بھی پڑھیں :الیکشن 30 اپریل کو نہیں ہوں گے
عمران خان تو ہر طرح کی تحریکیں چلا کر دیکھ چکے ریاست ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ریاستی مشینری کی طاقت کیا ہوتی ہے اس کی ایک بڑی مثال 2017 میں بھارت میں دیکھنے میں آئی جب ایک روحانی پیشوا گُرو گرمیت رام کو زیادتی کے مقدمے میں گرفتار کرنے کی کوشش میں پورے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے۔ گُرو کو نہ صرف حکومت میں شامل اہم شخصیات، طبقہ اشرافیہ اور عورتوں کی بڑی تعداد لاکھوں مریدوں کی عملی مدد حاصل تھی۔ پولیس کے ساتھ نیم فوجی اور فوجی دستوں کی مدد حاصل کی گئی، کئی مقامات پر کرفیو لگا کر انٹر نیٹ سروس معطل کردی گئی، زبردست ہنگاموں اور گھیراؤ جلاؤ کے دوران لگ بھگ دس لاکھ مشتعل مظاہرین سڑکوں پر تھے۔ ہزاروں املاک اور گاڑیاں جلا دی گئیں۔ مگر ایکشن جاری رہا 45 سے زیادہ مرید مارے گئے۔ پولیس نے آشرم میں داخل ہوکر گرو گرمیت سنگھ گرفتار کرلیا۔ اسے پہلے خصوصی جیل میں رکھا گیا اور مقدمات چلائے گئے۔ فیصلے والے دن گُرو کو روہتک جیل کے اندر قائم خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں وہ ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے معافیاں مانگتا رہا تاہم جرم ثابت ہونے پرعدالت نے اسے دو مختلف مقدمات میں 10،10 سال کی قید سنا دی۔ سزا سننے کے بعد گرو زمین پر بیٹھ گیا اور کمرے سے نکلنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اہلکاروں نے گھسیٹ کر روم سے نکالا۔گُرو گرمیت کا واقعہ محض ایک مثال ہے کہ ریاستی مشینری کسی قانون شکن کے خلاف کوئی ایکشن لینے کا فیصلہ کرلے تو عمل درآمد ہوکر رہتا ہے۔
نوٹ:رائٹر کے ذاتی خیالات ہیں ، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ