سانحہ اے پی ایس۔۔عمران خان عدالت میں پیش ۔مجرموں سے مذاکرات ۔۔ کیا ہم پھر سرنڈر کر رہے ہیں۔۔سپریم کورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
( 24 نیورز) سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیر اعظم عمران خان عدالت پیش ،آپ وزیر اعظم ہیں بتائیں کس کس کو پکڑا گیا ہے۔آپ نے کیا کیا ؟ انہی مجرموں کو آپ مذاکرات کی میز پر لے آئے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس کے از خود نوٹس کی سماعت ہوئی ، عدالت کے وزیر اعظم کو طلب کیا جس پر وزیر اعظم سپریم کورٹ پیش ہوئے اور روسٹرم پر آئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت میں معافی مانگنے کے بجائے استعفا دیا جاتا ہے مگر پاکستان میں ایسی روایت نہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مشرف کے دور میں امریکی جنگ میں کودنے کی مخالف کی تھی ، اس جنگ میں ہم نے 80 ہزار قربانیاں دیں ، سانحہ اے پی ایس کے وقت ہماری مرکز میں حکومت نہیں تھی ، صوبے میں حکومت تھی ، ہم نے شہدا کے لواحقین کیلئے ہر ممکن کام کیا۔ میں خود پشاور پہنچا ، ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی ، والدین اس وقت سکتے کی حالت میں تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں آپکے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں،وزیر اعظم صاحب ٹی ایل پی دھرنے میں 9 پولیس اہلکار شہید ہوئے آپ نے کیا کیا۔
وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں ہم ایکشن لینگے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت شہداء کے والدین کا موقف بھی سنے، جس کی بھی غفلت ثابت ہو اس کیخلاف کارروائی کی جائے، تعین کیا جائے کہ کس کی کیا کوتاہی تھی، حکومت دو ہفتوں کے اندر رپورٹ جمع کروائے۔
سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا جی بتائیں خان صاحب، اب تک کیا کارروائی ہوئی ؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول بہت دردناک تھا، سانحہ کی رات ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا، 2014 میں جب سانحہ ہوا خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت تھی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ والدین چاہتے ہیں اس وقت کے اعلیٰ حکام کیخلاف کارروائی ہو۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے آئین کی کتاب اٹھالی اور ریمارکس دیئے کہ یہ آئین کی کتاب ہے اور ہر شہری کو سکیورٹی کی ضمانت دیتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مشرف دور میں مخالفت کی تھی کہ امریکی جنگ میں نہیں کودنا چاہیئے، ہم نے 80 ہزار جانوں کی قربانیاں دی ہیں، اے پی ایس سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، عوام شدید صدمہ میں تھی، عوام دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فوج کے پشت پر کھڑی تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں آپ کو سیاق و سباق کے حوالے سے بتانا چاہتا ہوں، جب یہ واقعہ ہوا تو فوری پشاور پہنچا۔ عدالت نے کہا کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کیلئے کیا کیا ؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کر رہے ہیں ؟ اس پر وزیراعظم نے کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا وزیراعظم صاحب ! آپ متاثرہ بچوں کے والدین سے ملے ؟ آپ ان کو دلاسہ دیں، ان کی تسلی کرائیں، شکایات دور کریں۔ اس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں بچوں کے والدین سے کئی بار ملا ہوں، بچوں کے والدین کو اللہ صبر دے گا، ہم معاوضے کے علاوہ کیا کر سکتے تھے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ والدین کو ازالہ نہیں، اپنے بچے چاہیئے تھے، 20 اکتوبر کا ہمارا حکم ہے کہ ذمہ داروں کا تعین کر کے کارروائی کریں۔
وقفہ سماعت سے قبل چیف جسٹس نے استفسار کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے ؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کرینگے، ایسے نہیں چلے گا۔
سپریم کورٹ کا حکومت کو لواحقین سے مل کر رپورٹ دینے کا حکم۔ حکومت 4 ہفتوں میں رپورٹ جمع کرائے۔سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کیساتھ مل بیٹھ کر رپورٹ تیار کرے۔حکومت سانحہ آرمی پبلک سکول میں ملوث افراد کیخلاف مثبت اقدام اٹھائے۔
وزیر اعظم کی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی، سپریم کورٹ کی گزشتہ حکمنامہ پر عملدرآمد کی ہدایت،کیس کی سماعت 4 ہفتوں کیلئے ملتوی۔
یہ بھی پڑھیں:اتحادی ناراض۔حکومت خطرے میں۔بڑا فیصلہ ہو گیا