(24نیوز)سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت،جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگرسب کچھ عدلیہ نے کرنا ہے تو کیا یہ ایگزیکٹیو کے اختیار پر تجاوز نہیں ہوگا؟ کیا ایگزیکٹیو کی ناکامی پر عدلیہ سپر رول ادا کر سکتی ہے؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے سماعت کی ،وکیل عمران خان خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ غیر قانونی آمدن پر نیب کا اختیار ترامیم میں ختم کردیا گیاہے۔خواجہ حارث نے مزید کہا کہ نیب ترامیم سے پہلے نیب کو ایمنسٹی اسکیم میں غیر قانونی آمدن پر کاروائی کا اختیار تھا، ایمنسٹی اسکیم صرف کالا دھن سفید کرنے کیلئے ہوتی ہے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ غیر قانونی آمدن کے احتساب کے دیگر قوانین بھی موجود ہیں،سسٹم بریک ہوجائے تو سخت قانون بھی موثر نہیں رہتا۔خواجہ حارث وکیل عمران خان نےاس کے جواب میں کہا کہ نیب کی سستی پر سپریم کورٹ نے کرپشن کے معاملات کی تحقیقات کرائی جبکہ جعلی اکاونٹس معاملہ کی تحقیقات جے آئی ٹی سے کروائی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگرسب کچھ عدلیہ نے کرنا ہے تو کیا یہ ایگزیکٹیو کے اختیار پر تجاوز نہیں ہوگا؟ کیا ایگزیکٹیو کی ناکامی پر عدلیہ سپر رول ادا کر سکتی ہے؟خواجہ حارث نےکہا کہ آرمی چیف تقرری کے معاملہ پر عدالت نے قانون سازی کا حکم دیا ہے جس کہ جواب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم کو ملک چلانا نہ آئے تو کیا عدلیہ ملک کو چلائے گی؟کوئی کہے حکومت مشکوک ہے وزیر اعظم متنازعہ ہے تو کیا عدلیہ حکومت چلائے گی؟
خواجہ حارث کا موقف تھا کہ بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔جس پرجسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ کیا بنیادی حقوق کے تحفظ میں اختیارات کی تقسیم کی لکیر عدلیہ عبور کر سکتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عدلیہ ایگزیکٹیو کے اختیار پر تجاوز نہیں کر سکتی، عدالت ایگزیکٹیو کو اپنی زمہ داری پوری کرنے کا کہہ سکتی ہے، عدلیہ ایگزیکٹیو کااختیار استعمال نہیں کر سکتی۔سوموٹو کے حوالے سےچیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوموٹو کا اختیار بڑے احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ممنوعہ فنڈنگ کیس:پی ٹی آئی رہنما کی عبوری ضمانت منظور
،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیہ عدلیہ نے انتظامیہ کے کئی اقدامات کو کالعدم قرار دیا، اس حوالہ سے کئی عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ نیب ترامیم سے کئی شقوں کو نکال دیا گیا ہے، آپ کا موکل کہتا ہے نکالی گئی شقیں دوبارہ بحال کی جائیں، یہ صورتحال ماضی سے مختلف اور منفرد ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کمنٹ کیا کہ اگر نیب ترامیم بنیادی حقوق سے تصادم پر کالعدم ہو بھی جائیں تو پرانا قانون کیسے بحال ہوگا؟
کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔