جسٹس مظاہر علی نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل پر اعتراضات اٹھا دیے

Nov 10, 2023 | 17:10:PM

(امانت گشوری)سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اپنے خلاف ریفرنس اور شواہد کے  نقول مانگ لیں۔

تفصیلات کے مطابق  جسٹس مظاہر علی نقوی نے  اعتراضات سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کروادیئے جن میں کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے میری بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی کی مخالفت کی تھی، جوڈیشل کمیشن اجلاس کے منٹس اور ان کا اختلافی نوٹ مانگنے پر بھی نہیں دیا گیا، جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے جسٹس نعیم اختر افغان پر بھی اعتراض کیا گیا۔

 جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی   نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے 28 اکتوبر کو شوکاز نوٹس جاری کیا،میری اس تحریر کو شوکاز نوٹس کا جواب نہ سمجھا جائے،اپنے اوپر لگے الزامات کی تفصیلات لینے کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھ رہا ہوں،میرے خلاف درج شکایات کا ریکارڈ فراہم کیا جائے جس کو دیکھتے ہوئے جواب دے سکوں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس میں سپریم کورٹ عزت نفس کا تقدس واضح کر چکی ہے ،سپریم کورٹ قرار دے چکی جج سمیت ہر شہری کو آئین و قانون کے مطابق حقوق دیئے جائیں،جوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانبدار ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس نعیم اختر افغان آڈیو لیکس کمیشن کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  جن ججز کا آڈیو لیکس کی انکوائری کیلئے  کمیشن بنایا گیا وہی میرے خلاف شکایات کا بھی حصہ ہیں، آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے ممبران کو میرے خلاف جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں ہونا چاہئے،انصاف کے تقاضوں کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس نعیم اختر کو میرے خلاف کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہئے،جانبدار جوڈیشل کونسل کا اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانبدار ہے جس کا جواب نہیں دیا جا سکتا،سپریم جوڈیشل کونسل کی میرے خلاف کاروائی دائرہ اختیار سے تجاوز ہے،سپریم جوڈیشل کونسل کا شوکاز نوٹس سپریم کورٹ فیصلوں کی نفی ہے،جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کی پریس ریلیز میری رضا مندی کے بغیر جاری کی، سپریم جوڈیشل کونسل کی پریس ریلیز میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،پریس ریلیز کا مقصد میرا میڈیا ٹرائل اور عوام کی نظر میں تضحیک کرنا تھی۔

جسٹس مظاہر نقوی کا مزید کہنا ہے کہ  میرے خلاف کاروائی امتیازی سلوک اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے میری تقرری سمیت میرے متعدد فیصلوں کی مخالفت کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے میرے خلاف کاروائی کیلئے چیف جسٹس بندیال کو خط لکھا تھا،موجودہ جوڈیشل کونسل کے تمام فیصلے جانبدار ہونے کی وجہ سے غیر قانونی تصور ہونگے،جسٹس سردار طارق کیخلاف شکایت پر انکو شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر شکایت کنندہ آمنہ ملک کو نوٹس کیا گیا،  کونسل کے رکن جسٹس سردار طارق مسعود  کیخلاف بھی شکایات 27 اکتوبر کے اجلاس میں زیر غور تھی،یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ میری خلاف کاروائی سیاسی ایما پر ہورہی ہے،میرے خلاف کاروائی غیر قانونی اور نامناسب ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف کی ضبط شدہ جائیداد اور اثاثے واپس کرنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل اکثریت سے صرف حتمی رائے صدر مملکت کو بھجوا سکتی ہے،آئین سپریم جوڈیشل کونسل کو رولز بنانے کی اجازت ہی نہیں دیتا،چیف جسٹس اور جسٹس سردار طارق جوڈیشل کونسل رولز کو پہلے ہی غیرآئینی کہہ چکے ہیں،شوکاز نوٹس میں اپنا موقف تبدیل کرنے کی دونوں ججز نے کوئی وجہ نہیں بتائی،میرے کیس میں شکایت کنندہ کو بلایا گیا نہ ہی مزید معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا،جو موقع جسٹس سردار طارق کو کونسل کی جانب سے دیا گیا وہ مجھے نہیں ملا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ شوکاز نوٹس میں کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا،شوکاز کیساتھ منسلک 10 شکایات میں غیر سنجیدہ الزامات ہیں جن کے شواہد بھی موجود نہیں۔

مزیدخبریں