پاکستان نے فلاں ٹیم کو ہرا کر تاریخ رقم کر دی، قومی ٹیم کی شاندار کارکردگی، سیریز جیت لی، گرین شرٹس نے ناکوں چنے چبوا دیئے، یہ ایسی ہیڈ لائنز ہیں جو پاکستانی شائقین کو اخباروں یا اپنے گھروں کی ایل ای ڈی پر کم ہی دیکھنے کو ملتی تھیں لیکن لگتا ہے انگلینڈ اور آسٹریلیا کو ہرانے کے بعد اب اکثر یہ شہ سرخیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ راقم الحروف اپنے پہلے کالم میں لکھ چکاہے کہ پاکستانی ٹیم کی یہ خوبی ہے کہ یہ بڑے میچ کی ٹیم ہے، یہ ٹیم زمبابوے کے خلاف زمبابوے کے سٹینڈرز کی انگلینڈ کیخلاف انگلینڈ کی اور آسٹریلیا کے خلاف اس کے معیار کے مطابق کی کرکٹ کھیلتی ہے،اس چیز کو آسٹریلیا کے خلاف جیت نے ثابت کر دیا کہ پاکستانی ٹیلنٹ کو صرف ایک ڈائریکشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 22 سال بعد پاکستانی باؤلرز کو ٹریک پر کون لایا، جی ہاں یہ ہیں محمد رضوان ۔ وکٹ کیپر بیٹسمین نے وہ کام کر دکھایا جو لاکھوں ڈالر سالانہ تنخواہ لینے والے کوچ بھی نہیں کر سکے۔ رضوان میں مہندرا سنگھ دھونی کی کپتانی کی جھلک نظر آئی جو صرف ایک کھلاڑی ہی نہیں تھے بلکہ کرکٹ کی ایک ’’سائنس‘‘ تھے۔ دھونی اپنے کھلاڑیوں کو اعتماد دینے میں نمبر ون تھے۔ میچ کی آخری گیند پر جب مخالف ٹیم کو جیت کیلئے چار رنز چاہئے ہوتے تو باؤلر اکثر مشورہ لینے کیلئے خود ان کے پاس آتا تھا اور وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر صرف اتنا کہتے تھے جہاں تمارا دل کرے گیند کراؤ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ باؤلر5 گیندیں کرانے کے بعد سچوئشن کو مجھ سے زیادہ سمجھ چکا ہے۔بھارتی باؤلرز کی ایک کثیر تعداد دھونی کے متعلق اپنے کئی انٹرویوز میں اس بات کا اقرار کر چکی ہے۔ رضوان بھی اپنے کھلاڑیوں کو اعتماد دیتے ہیں ۔ وہ کھلاڑیوں کو صرف گراؤنڈ میں ہی نہیں جب بھی موقع ملے ان کو ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں وہ چاہے پریکٹس کیلئے یا میچ کیلئے بس میں جانے کا موقع ہو یا میچ کے دوران لنچ بریک ہو وہ کھانے کی ٹیبل کی سائیڈ پر 3 چار کو اکٹھا کرکے ان کی ذہنی طور پر اصلاح کرتے ہیں چونکہ رضوان وکٹ کپیر ہیں اس لئے وکٹوں کے پیچھے وہ بہتر انداز میں گیند اور بلے کے ملاپ کو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا میں 22 سال بعد پاکستانی باؤلنگ کو لائن اینڈ لینتھ رضوان کی وجہ سے ہی ملی۔
پہلے کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے میچ میں نسیم، شاہین، حارث اور حسنین نے وسیم، وقار اور شعیب اختر کی یاد تازہ کر دی۔ لیفٹ آرم وسیم تین چار قدموں کے سٹارٹ سے ایسی گیند بھی کراتے ہوئے دیکھے گئے کہ بیٹسمین کو گیند وسیم کے ہاتھ کے بعد راشد لطیف یا معین خان کے گلوز میں نظر آئی۔ وقار کی سانپ کی طرح آتی گیندوں کو منجھے ہوئے کھلاڑی بھی کھیلنے سے ڈرتے تھے۔ شعیب کا بھی کوئی ثانی نہیں رہا، بریٹ لی بھی اس کی تصدیق کرچکے ہیں کہ’’ شعیب از فاسٹس‘‘۔
چیئر مین پی سی بی محسن نقوی کی کاوشوں سے ہی پاکستانی ٹیم ٹریک پر آئی۔ محسن نقوی ہر وقت کچھ نہ کچھ بہتر کرتے رہنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ فجر کی نماز کے بعد منہ اندھیرے قذافی سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کا معائنہ کرنے پہنچ جانا یا پھر کراچی سے اسلام آباد اور لاہور پہنچ کر ٹیم یا پی سی بی کی میٹنگز اٹینڈ کرنا پی سی بی کی تاریخ میں کوئی چیئر مین نہیں کر سکا۔ چیئر مین پی سی بی نے محمد رضوان کو کپتان بنا کر ٹیم میں نئی جان ڈال دی ہے۔آسٹریلیا میں جیت نے ثابت کر دیا کہ جنگجو محمد رضوان آنے والے دنوں میں بھی بڑی فتوحات سمیٹ سکتے ہیں۔ وکٹ کیپر بلے باز کھیل میں اتنے ’’ ان والو‘‘ دیکھے گئے ہیں کہ بابر کے کپتان ہونے پر دوران فیلڈنگ خود ہی تھرڈ امپائر کو ’’ریویو‘‘ کا اشارہ کر دیتے تھے۔ جس پر اکثر بابر کو یہ کہتے ہوئے بھی دیکھا گیا کہ یار کپتان تو میں ہوں یہ میری ذمہ داری ہے۔ آسٹریلیا میں جیت کا کریڈٹ سلمان آغا کو نہ دیا جائے تو یہ نا انصافی ہوگی جو نہ ون ڈے کی کپتانی لینے سے انکار کرتے، نہ محمد رضوان کپتان بنتے اورنہ پاکستان آسٹریلیا میں سیریزاپنے نام کرنے میں کامیاب ہوتا۔
اگرچہ کینگروز ہار گئے مگر آسٹریلین بورڈ نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی ٹیم کی طرح دنیا کا بڑا بورڈ ہے۔ سیریز کے فیصلہ کن میچ میں کپتان سمیت 5 کھلاڑیوں کی تبدیلی آسان کام نہیں،دنیا کا کوئی بورڈ ایسے وقت میں ایسا فیصلہ نہ لیتا۔ یقین ہے کہ آسٹریلین بورڈ کے اس فیصلے سے میچ کھیلنے والے 5 کھلاڑیوں کا شکست سے مورال نہیں گرا ہوگا بکہ انہوں نے ایک پریشر میچ کا بہترین تجربہ حاصل کیا ہوگا جو آنے والی کرکٹ میں انہیں اور مضبوط کھلاڑی کے طور پر سامنے لائے گا۔
22 سال بعد آسٹریلیا کو اس کی سر زمین پر ہرانا یقینی طور پر ایک بہت بڑا کام ہے جس کیلئے اتنا ہی کہوں گا ۔ویلڈن محسن نقوی، ویلڈن محمد رضوان اور تھینک یو سلمان آغا۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر