سموگ کی اصل وجہ اور حکومتی رویے
اسعد نقوی
Stay tuned with 24 News HD Android App
باغوں کا شہر سموگ کے نرغے میں ہے ۔لاہور کا ائیرکوالٹی انڈکس پوری دنیا میں سب سے برُا ہے، جہاں سانس لینا تک محال ہوچکا ہے ۔سکولز میں چھٹیاں دینے اور حفاظتی اقدامات کے باوجود سموگ بڑھتی جا رہی ہے ۔ہر شخص جاننا چاہتا ہے کہ آخر اس شہر کو کس کی نظر لگی ہے ۔ کیا بھارت میں جلنے والی فصلوں کی وجہ سے لاہور کی فضا آلودہ ہوئی ہے ۔ آخر ایسی کونسی وجہ ہے کہ کئی برسوں سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کے باوجود سموگ پر قابو نہیں پایا جارہا ۔
سکول لائف میں راقم غالبا چھٹی جماعت میں تھا تب صوبے بھر کے سکولز کے درمیان تقریری مقابلہ تھا اور موضوع تھا ’ماحول آلودہ شہری آزردہ‘ اس تقریری مقابلے جہاں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف جو اب وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہیں سٹیج پر موجود تھے ، جاوید اقبال بھی سٹیج پر موجود تھے تب ان کی موجودگی میں اور ان حضرات کومخاطب کرکے راقم نے ایک جملہ کہا تھا کہ ’ جناب صدر ماحول کو آلودہ ہونے سے بچائیے، اور آنے والی نسلوں پر رحم کیجیے ورنہ آنے والی نسلیں بغیر چشمے کے نظر نہ آئیں گی ‘
گو یہ جملہ غلو تھا مگر حقیقت کا روپ دھارتا جار ہا ہے ۔ سموگ دراصل گردوغبار اور آلودہ پانی کی آمیزش سے فضا ءمیں تحلیل ہونے والی آلودگی ہے جو زیریلے دھوئیں کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ سموگ کی کی عموما دو اقسام ہیں جس میں سلفورس سموگ اور فوٹوکیمیکل سموگ شامل ہیں۔ سلفورس سموگ کو لندن سموگ اور فوٹو کیمیکل کو لاس اینجلس سموگ کہتے ہیں۔دنیا میں پہلی بار سموگ کا لفظ 1950 کی دہائی میں استعمال کیا گیا جب یورپ اور امریکہ کو پہلی با رصنعتی انقلاب کی وجہ سے فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسموگ دو الفاظ دھواں(Smoke) اور دھند (Fog) کے باہمی اشترک سے بنا ہے جو کہ پہلی مرتبہ 1900ء کے اوائل میں لندن میں استعمال ہوا، جہاں دھند اور دھوئیں نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔
پاکستان میں فوٹو کیمیکل سموگ پائی جاتی ہے ۔اس میں وولیٹائل کے باریک ذرات شامل ہوتے ہیں، یہ ذرات مختلف قسم کی گیسوں ،مٹی اور پانی کے بخارات سے مل کر بنتے ہیں ۔سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ جو کہ صنعتوں گاڑیوں اور کوڑا کرکٹ جلانے سے ہوا میں شامل ہو جاتی ہیں، جب سورج کی کرنیں ان ذرات پر پڑتی ہیں تو سموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ سردیوں میں جب ہواکی رفتار کم ہونے سے ہوا میں یہ دھواں اور دھند جم کر سموگ کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔
بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق انڈیا میں سالانہ 4 لاکھ ٹن دھان کی فصل کا کچرا جلایا جاتا ہے ۔کہا جاتاہے کہ اس دھویں ہی کی وجہ سے حد نگا ہ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ کمی اب صرف لاہور میں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا سلسلہ فیصل آباد ، ملتان ، بہاولپور تک جا پہنچا ہے جبکہ بھارت کے شہر دہلی اور انبالہ بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں ۔ بلکہ یوں کہیں کہ لاہور کے بعد دوسرا شہر دہلی یا انبالہ ہے جہاں سموگ زیادہ ہے اور یہ سموگ صرف بھارت اور پاکستان میں ہی نہیں بلکہ یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی ہے مگر وہ مصنوعی بارش کرکے اس پر قابو پا لیتے ہیں جیسا کہ پچھلے برس نگران حکومت میں پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ محسن نقوی نے مصنوعی بارش کروا کر لاہوریوں کو سموگ سے نجات دلائی تھی ۔
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق دنیا میں سالانہ 70 لاکھ افراد کی اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہے۔ دنیا کی 91 فیصد آبادی ان جگہوں پر رہتے ہیں جہاں ہوا کا معیار عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی حدوں سے تجاوز کرتا ہے ۔ امریکی رپورٹ کے مطابق لاہور کی آلودہ فضا کے باعث لاہور میں ایک برس گزارنے والے کی عمر سات برس کم ہو گی ۔
چین میں سموگ کا سلسلہ ایک عرصہ تک چینیوں کے لیے درد سر بنا رہا ہے، مگر انہوں نے بہترین اقدامات کر کے اس پر قابو پالیا ہے، جس کی ایک مثال دنیا میں نسب کیا جانے والا سب سے بڑے ایئر فلٹر کی ہے جو کہ اس وقت چین کے شہر بیجنگ میں نصب ہے۔جبکہ چین جس نے دنیا میں صنعتی انقلاب برپا کر دیا ہے فضائی آلودگی کے لحاظ سے دنیا کے پہلے پندرہ ممالک میں آتا ہے۔ چین میں ایک دہائی پہلے فضائی آلودگی اپنے عروج پر تھی اور چین سموگ کے حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں موجود تھا۔ چین اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس اور مرکری خارج کرنے والا ملک ہے۔ چین میں فضائی آلودگی 2013میں سب سے زیادہ تھی اور اب صورت حال یہ ہے کہ فضائی آلودگی کی شرح 1990کی دہائی سے بھی نیچے آچکی ہے۔ بیجنگ میں سموگ میں 33فیصد اور ریور ڈیلٹا میں 15فیصد کمی آئی جوکہ چین کی ماحولیات کے شعبے میں بہت بڑی کامیابی تھی۔ چین نے فضائی آلودگی میں مزید کمی کرنے کیلئے حال ہی میں امریکہ کی طرز پرکلین ائیر ایکٹ کا اجرا کیا ہے۔
دی گریٹ سموک آف لندن ایک مثال ہے جو برطانیہ میں پھیلی تھی ۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں 19ویں اور 20ویں صدی میں متعدد مرتبہ سموگ شہر پر چھا جانے کے واقعات دیکھے گئے تھے ۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا جب لوگ کوئلہ جلا کر گھروں کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے اور شہر میں موجود ہیوی انڈسٹری میں سے مختلف کیمیکلز فضا میں چھوڑے جاتے۔سنہ 1952 میں دی گریٹ سموگ آف لندن ان سب میں سے سب سے زیادہ مقبول موقع تھا جب چار روز تک حدِ نگاہ اتنی کم ہو گئی تھی کہ صرف چند فٹ تک ہی واضح دکھائی دیتا تھا۔ اس دوران کچھ اندازوں کے مطابق 10 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سموگ نے زندگی کو ایسے مفلوج کر دیا تھا کہ یہ گھروں اور تہہ خانوں میں بھی داخل ہو گئی تھی اور سنیما گھروں میں سکرینز نظر آنا بند ہو گئی تھیں۔5 دسمبر 1952 کو جب تہوار کے موسم کے آغاز کے بعد لندن کے باشندے شہر میں سیر و تفریح کر رہے تھے، تو ایسے میں صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔جیسے جیسے رات ڈھلتی گئی، دھند گہری ہوتی گئی اور جلد ہی سموگ کی ایک تہہ نے دارالحکومت کو اندھیروں میں ڈبو دیا اور نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا۔لندن والے سڑکوں پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مگر انھیں چند گز سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اگلے دن سورج طلوع ہوا تو سموگ پھر بھی برقرار رہی۔ بلکہ سورج کی روشنی میں یہ مزید گہری ہو گئی یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں لوگ ایک قدم باہر نہیں نکال سکتے تھے۔اگلے چار دنوں تک شہر مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا۔زہریلی ہوا میں سانس لیتے لندن والے اب ایک نئی مصیبت میں گِھر گئے۔ شہر میں نمونیا اور برونکائٹس (کھانسی، گلا خرابی جیسے امراض) پھیل گئے اور شہر کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے کیونکہ ہزاروں لوگ زہریلی ہوا میں دم توڑ گئے تھے ۔
1956 میں برطانیہ کی پارلیمان کی جانب سے ’کلین ایئر ایکٹ‘ پاس کیا گیا جس میں صنعتی اور گھروں سے نکلنے والے دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں ’سموک کنٹرل ایریاز‘ بنائے گئے جہاں صرف ایسے ایندھن جلائے جاتے جن کا دھواں قدرے کم ہوتا ہے، اور گھروں کے مالکان کو سبسڈی دی گئی تاکہ وہ پائیدار ایندھن پر منتقل ہو سکیں۔ اب یہ صورت حال ہے کہ لوگ لندن کے پرفضا مقامات پر تصاویر لگاتے اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں ۔
1980 کی دہائی کے بعد سے جب چین میں کوئلے سے چلنے والے پاور سٹیشن اور گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا تو چین کے داراحکومت بیجنگ میں زہریلے کیمیکلز اور فضائی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہونے لگا۔سنہ 2014 میں شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کا کہنا تھا کہ شہر ’انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا‘ کیونکہ یہاں آلودگی بہت زیادہ ہے۔ چین نے جو اقدامات متعارف کروائے وہ سنہ 1998 کے بعد سے دو دہائیوں تک مختلف اشکال میں نافذ کیے جاتے رہے۔چین کی حکومت صنعتوں پر اخراج کو بہت کم کرنے کے لیے معیار وضع کیے، جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم بنایا اور مزید پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر بھی بنایا۔ چین میں گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کوالٹی کو بھی بہتر بنائی گئی۔ اب چین میں اس حد تک سموگ نہیں ہے چین نے سموگ پر کافی قابو پا لیا ہے ۔
پاکستان میں سموگ نے 2015 میں اس وقت شدت اختیار کی جب موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور اور پنجاب کے بیشتر حصوں کو شدید دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس کے بعد یہ مسئلہ اب بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ حکومت ان اقدامات پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے مگر وہیں پر کوآرڈنیشن نہ ہونے کی وجہ سے ناکام بھی نظر آتی ہے ۔ کیونکہ ایک طرف حکومت نے لاہور میں ہیوی ٹرانسپورٹ کے داخلے ،دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کوجرمانے ، زگ زیگ کی ٹیکنالوجی پر منتقل نہ ہونے والے بھٹوں کی بندش کی ہے ۔درخت کاٹنے پر پابندی اور شجرکاری کو فروغ دیا ہے ۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے اس حوالے کافی اقدامات کروا کر حکومت کو مجبور کردیا ہے کہ وہ سموگ پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ ہوں ۔ انھوں نے تو صبح کے اوقات میں صفائی تک کرنے سے منع کیا تاکہ ٹریفک کے دھوائیں میں مزید گرد شامل نہ ہو لیکن لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم کو اس حوالے سے بھی نوٹس لینا ہوگا کہ ڈی جی ایل ڈی سموگ کے ہی دنوں میں جب لاہور کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے تجاوزات ہٹانے کے نام پر بلڈنگز بلڈوزر کے ذریعے گرائی جا رہی ہیں ۔ جب تجاوزات ہو رہی تھیں تب ایل ڈی اے کا عملہ خواب غفلت کا شکار تھا اور اب آلودہ فضا کو مزید آلودہ کرنے کے لیے ڈی جی ایل ڈی اے تجاوزات اور اراضی سے قبضہ چھڑانے کے نام پر مٹی کاطوفان اٹھا رہے ہیں حالانکہ حکومت چاہے تو سیل کرکے اور دیگر اقدامات کرکے بھی سموگ کے سیزن میں اپنا کام جاری رکھ سکتی ہے ۔
ایک جانب سکولز تو بند کیے ہیں مگر اساتذہ کو سکولز میں بلوایا گیا ہے یعنی سڑک پر ٹریفک کادباؤ بدستور قائم ہے ،اگر آن لائن کلاسز سے سموگ کے سیزن میں شہریوں کی زندگی بچ سکتی ہے، تو بہتر ہے کہ یونیورسٹیز تک آن لائن کردیا جائے اور آئندہ کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ سموگ شروع ہوتے ہی مصنوعی بارش سے پہلے ہی قابو پا لیا جائے کیونکہ حکومت مصنوعی بارش سے سموگ پر قابو پانے کی کوشش تب کرتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے ۔
کیونکہ طبی ماہرین کے مطابق سموگ سیزن کے دوران بچوں کا دن میں باہر نکلنا ایسے ہی ہے جیسے بچوں نے ایک دن میں 30 سگریٹ پیئے ہوں یونیورسٹی آف شکاگو کی ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی ایک تحقیق جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ہوا کی آلودگی سالانہ ایک لاکھ 35 افراد کی جان لینے کا سبب رہی ہے۔ ان اموات میں زیاد تر اموات مشرقی بارڈر پر ہو رہی ہیں جس میں پنجاب شامل ہے جبکہ پنجاب میں سب سے زیادہ اموات لاہور ڈویژن میں ہو رہی ہیں۔اس آلودگی کا سبب ٹرانسپورٹ سیکٹر بھی بن رہا ہے۔ ان کے مطابق سموگ کا 40 فیصد سبب ڈیزل والی گاڑیاں ہیں اور ان کا سد باب ہونا چاہیے۔