(بابرشہزاد ترک) سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی ۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے درخواستوں پر سماعت کی ، ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے جبکہ کل اٹارنی جنرل دلائل دیں گے ،ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں فریق نہیں ہوں، عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا،سوال ہوا کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں، عدالت کو دو فیصلوں پر دلائل دوں گا،ایک بار کاکڑ کیس کا حوالہ دوں گا، دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دوں گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں،جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں "لا" کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، کنفیوژن ہے کہ آرٹیکل 191 میں لاء کے لفظ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ رولز میں ردو بدل ہے یا نہیں،آرٹیکل 191 میں لفظ "لاء" کا مطلب ہے کہ وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے۔سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے۔
ہنسنے کی کوئی بات نہیں، چیف جسٹس کی وکیل کو تنبیہ
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ اگر لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہوتا تو آئین سازوں نے بھی یہی لکھا ہوتا، جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آپ ہر سوال کا جواب نا دیں،مسٹر صدیقی، آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں،اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں ہے، چیف جسٹس کی وکیل کے مسکرانے پر تنبیہ کردی ۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ4 سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں اور کئی کیسز التوا کا شکار ہو رہے ہیں،میری اپنے ساتھی ججز سے درخواست ہے کہ اپنے سوالات کو روک کر رکھیں،بینچ میں ہر کوئی سوال کرنا چاہتا ہے لیکن وکیل کی کوئی دلیل پوری تو ہونے دیں، دوران سماعت بار بار سوال پوچھنے پر چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو روک دیا ۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں بھی اس عدالت کا ایک جج ہو،سوال پوچھنا ایک جج کا حق ہے، چیف جسٹس پاکستان بولے کہ آپ اپنے سوال ضرور پوچھے لیکن دلاٸل مکمل ہونے کے بعد۔اگر ہم نے پہلے ہی اپنے زہن بنا لیئے ہیں تو ہم فیصلے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر بولے کہ افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے مجھے بار بار ٹوکا جا رہا ہے،وکیل کو کون ٹوک رہا ہے۔چیف جسٹس کے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے سوال کردیا،بولے کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا کیا مطلب ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون سے سپریم کورٹ کی اندرونی ورکنگ میں مداخلت ہوئی یا نہیں؟
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ سبجیکٹ ٹو اور لاء کو الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آئین نے یہ کیوں کہا کہ عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں؟ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی،کیا یہ ایکٹ سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت ہے یا نہیں؟
فیصل صدیقی بولے کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے،پارلیمنٹ ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی جو سپریم کورٹ کو اپنے رولز بنانے سے روکے، پارلیمنٹ پر 4 پابندیاں ہیں،پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتی،پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرنے والی قانون سازی نہیں کر سکتی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ پر عائد تمام آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی،وکیل فیصل صدیقی بولے کہ ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں کے ساتھ ملا کر بتاؤں گا کہ پارلیمنٹ نے کیسے خلاف ورزی نہیں کی، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ سپروائز کرنے کا مطلب تو سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہو گا،وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار کی بھی حدود ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا لیجسلیٹیو اینٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ یہ اہم سوال ہے جس کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں،اگر آرٹیکل 191 کو لیجسلیٹیو اینٹری 58 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا، صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے۔
وکیل فیصل صدیقی بولے کہ میری رائے صلاح الدین احمد سے مختلف ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے؟
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہونے پر ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دوبارہ دلائل شروع کیے تو جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل سے ایکٹ پر قانون سازی کا پارلیمنٹری ریکارڈ منگوایا گیا تھا؟فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ریکارڈ کے معاملے پر جواب اٹارنی جنرل ہی دے سکتے ہیں، دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا آئین میں اپیل کا حق دینے پر کوئی پابندی ہے یا نہیں،جسٹس عائشہ ملک کہا کہ آئین میں 400مرتبہ لاء کا لفظ استعمال ہوا ہے، کیا آرٹیکل 191 میں لاء کا مطلب قانون سازی کا اختیار دینا ہے اور باقی شقوں میں مختلف ہے؟ آئینی تشریح کیلئے کسی نا کسی پرنسپل پر انحصار کرنا ہوتا ہے، آپ کون سے پرنسپل پر انحصار کر رہے ہیں؟
آئین میں پارلیمنٹ کو براہ راست اختیار کہاں دیا گیا ہے؟ جسٹس مندو خیل
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ عدالت کو اتنی تفصیلات کے بجائے دیکھنا چاہئے کہ سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل ہو سکتی ہے یا نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپیل تو آئین میں پہلے بھی دی گئی ہے،
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک وقت پر ایک شخص بات کرے، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، رولز بنانے کو مگر قانون سے مشروط کیا گیا ہے، جسٹس منیب نے آئینی تاریخ کی بات کی تھی اس تناظر میں بات کروں گا، جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ وہ کیا ضروریات تھیں جن کی بنیاد پر پارلیمنٹ نے یہ ایکٹ بنایا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپیل کا حق آئینی ترمیم سے ہی دیا جا سکتا ہے، فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر یہ اپیل غیر آئینی ہے تو لاریفارمز میں دی اپیل بھی غیر آئینی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وہ والا معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے،دو غلط مل کر ایک درست نہیں بنا دیتے۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ازخود نوٹس اختیار سے متعلق اہم ریمارکس دیئے اور کہا کہ آرٹیکل 191 کی لینگوئیج سبجیکٹ ٹو لا سے شروع ہوتی ہے، کیا ان الفاظ سے پروسیجر میں بہتری کی گنجائش چھوڑی گئی؟
آرٹیکل 184/3 جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں،چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ کا بینچ بھی رولز کا پابند ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا خیال ہے پابند ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ انتظامی طور پر بنائے گئے رولز جوڈیشل اختیاراستعمال کرتے ہوئے بھی بائنڈنگ ہیں؟ کوئی بینچ بیٹھ کر رولز کو غیر آئینی کہہ سکتا ہے؟ کیا بینچ 1980 کے رولز سے متعلق آرڈر دے سکتا ہے؟ اگر پارلیمنٹ بھی نہیں کر سکتی بنچ بھی نہیں کر سکتا تو پھر سارا اختیار ایک شخص کے پاس رہ جاتا ہے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ رولز کی آئینی حیثیت پر بینچ آرڈر دے سکتا ہے، جسٹس منیب اختر کے سوالات پر چیف جسٹس نے پھر ٹوک دیا اور کہا کہ پہلے میرے سوال کا جواب دیا جائے بعد میں دوسرے سوال پر آئیں،
میں نہیں چاہتا میرے سوال کے ساتھ کچھ اور آئے، میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں، ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں، آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ چیف جسٹس صاحبان اپنا کام نہیں کرتے؟ اب جب قانون بن گیا ہے تو ہم کہتے ہیں ہم کسی کو جوابدہ نہیں ہیں، کئی کئی سال کیس نہیں لگتے اور ہم کہتے ہیں ہم نہیں لگاتے، ہماری مرضی،ہم لوگ اپنا احتساب کیوں نہیں کرتے اور جب کوئی کرتا ہے تو ہمیں اعتراض ہو جاتا ہے، یہ قانون جو آیا ہے آپ کہتے ہیں کہ 99 فیصد خامیوں کو دور کرتا ہے، ایک فیصد صرف اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے اس میں خامی رہ گئی ہے، آپ صرف ایک فیصد پہ اٹک گیے 99 فیصد بہتری کو نہیں دیکھ رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اپیل کا حق کسی کو ملنا ہے اور کسی نہیں، جس کو اپیل کا حق نہیں ملے گا اسکا حق تو مجروح ہوگا،اپیل کا حق قانون میں بھی ہے اور شریعتِ میں بھی ہے، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اپیل کا حق اس وقت ہے جب ایک جج بنچ کی تشکیل کا فیصلہ کرتا ہے،جب 3 ججز کی کمیٹی فیصلہ کرے گی تو پھر اپیل کا انحصار اس پر ہوگا، چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں کب آخری فل کورٹ بنچ بیٹھا، 21 ویں ترمیم کا آخری فیصلہ کیا گیا تھا اس کے خلاف تو اپیل نہیں آئی، جب یہ قانون آگے چلے گا تو پھر مستقبل کے معاملات سلجھیں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی کا وکیل ایم کیو ایم سے مکالمہ نے کیا کہ کیا کبھی ایسی ٹیم کو جیتتے دیکھا ہے جس کے 3 کپتان ہوں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں بھی سپورٹس مین رہ چکا ہوں، ٹیم میں کپتان اور نائب کپتان دونوں ہوتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا مشکلات کے مدنظر آرٹیکل 191 کے تحت ہم رولز بنا سکتے ہیں، جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ 191 کے تحت فل کورٹ میٹنگ کون بلائے گا، فل کورٹ کی میٹنگ چیف جسٹس بلائے گا، یا دوسرے ججز میٹنگ بلا کر رولز بنا سکتے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فل کورٹ بلانے کا رولز میں تو کوئی ذکر نہیں، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ ایک پریکٹس ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیاکہ لائٹر نوٹ کے طور پر پوچھ رہا ہوں آپکو کتنی فیس ملی ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا جواب دے کر میں خود کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل 11:30 بجے تک ملتوی کر دی،چیف جسٹس نے آج کی سماعت کی کارروائی کا حکمنامہ لکھوا دیا، کل اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔
گزشتہ روز سماعت میں چیف جسٹس قاضی قائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی ہے، اگر کوئی مریض مر رہا ہو تو کیا میڈیکل کی سمجھ رکھنے والا صرف اس لیے مریض کو مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے ؟
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کو کہتے ہیں کہ نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربراسٹیمپ بنا دیتا ہے۔