سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، فیصلہ ہوگیا؟ نواز شریف اور جہانگیر ترین کو کتنا فائدہ؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، فیصلہ ہوا تو نواز شریف اور جہانگیر ترین کو کتنا فائدہ؟
پروگرام’10تک‘میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ یہ کیس اس لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے کیس کا فیصلہ پاکستان کے سیاست اور جمہوریت پر گہرے نقوش ثبت کرے گا۔کیونکہ اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹس کو قانون تسلیم کر لیا جاتا ہے اور اس کے حق میں فیصلہ سنا دیا جا تا ہے تو سپریم کورٹ کی حد تک یہ طے ہو جائے گا کہ پارلیمنٹ سب سے زیادہ خود مختار ہے اور سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی ادارہ اس کے بنائے گئے قوانین میں مداخلت نہیں کر سکے گے۔اس کیس کے فیصلے سے بعض تاحیات ہونے والے رہنماؤں کو ریویو اپیل کا حق حاصل ہوگا جبکہ 62 ایف کے تحت نااہلی کی مدت پانچ برس تک ہونے کی قانون سازی بھی درست تسلیم ہو گی ۔پارلیمنٹ کی خود مختاری بحال ہو گی جس میں کسی بھی پاور فل ادارے بشمول اسٹیبلشمنٹ دخل اندازی ناقابل قبول تصور ہو گی ۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے سے جہاں تاحیات نا اہل ہونے والے نواز شریف، جہانگیر ترین کو فائدہ حاصل ہوگا اور ان کو ریویو کو حق حاصل ہو جائیگا۔جس کے بعد اس چیز کے واضع آثار ہیں کہ اس کیس کے فیصلے کے بعد نواز شریف وطن واپسی سے قبل ریویو اپیل دائر کرینگے اور ان کے لیے وطن واپسی کے لیے راہیں پہلے سے زیادہ آسان ہو جائیں گی ۔ریویو کے ذریعے ان پر لگے تمام الزامات ختم ہونے کے بھی امکانات ہیں ۔اس کے علاوہ اس کیس کے ذریعے 16 ماہ میں ہونے والی قانون سازی جو عدلیہ میں چیلنج ہوئی درست کہلائے گی ۔اس مین ایک قانون 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کی مدت کا تعین بھی ہے جو 5 سال تک کر دی گئی ۔یہ قانون سازی بھی نواز شریف کو براہ راست فائدہ پہنچائے گی کیونکہ ان کی نا اہلی کی مدت 5 سال مکمل ہو چکی ہے اس طرح وہ عملی طور پر سیاسی میدان میں حصہ لے سکیں گے ۔ اس کیس کے فیصلہ مثبت آنے سے سے بھی کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں ،یہاں سوال یہ ہے کہ اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو درست مان لیا جاتا ہے تو کیا اس پر لگے اسٹے کے دوران بننے والے بینچز اور فیصلے بھی کالعدم تصور کیے جائینگےَکیونکہ اس ایکٹ کے قانون بننے اور اس پر اسٹے دیے جانے کے بعد بہت سے ججز نے نئے بینجز سے کنارہ کشی اختیار کی ۔موجودہ چیف جسٹس نے تو5 ماہ تک کسی بھی بینچ کو حثیت کو قانونی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے چیمبر ورک کو ترجیح دی ۔تو کیا اس دوران آنے والے تمام فیصلے کالعدم قرار دیے جائینگے؟یہاں سوال یہ بھی ہے سپریم کورٹ نے اپنی حد تک کو پارلیمنٹ کی برتری کو تسلیم کر لیا کیا دوسرے ادارے(اسٹیبلشمنٹ ) بھی پارلیمنٹ بھی اس فیصلے کی تقلید کرے گی ؟اسی کیس او ر اس سے پیدا ہونیوالی ممکنہ صورتحال اور کچھ دیگر وجوہات نے مسلم لیگ ن کے علاوہ باقی جماعتوں کو اب لیول پلئنگ فیلڈ کا نعرہ لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی اس سارے سیٹ اپ سے انتہائی نالاں ہے۔پیپلز پارٹی جو 16 ماہ تک مسلم لیگ ن کی اتحادی رہی ہیں لیکن موجودہ منظر نامے میں انکی مسلم لیگ ن کی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں ۔اطلاعات ہیں کہ جنوری میں ہونے والے ممکنہ انتخابات کے پیش نظر لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل کرنے کے لیے شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف علی زرداری نے اپنی پارٹی کی جانب سے ظاہر کیے گئے سنگین تحفظات کا اظہار کرنے کے لیے متعلقہ حلقوں سے رابطہ کیا ہے۔ ان تحفظات میں خاص طور پر پنجاب اور مرکز کی نگران حکومتوں کی جانب سے مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ترجیحی سلوک بھی شامل ہے۔ پیپلزپارٹی انتخابات میں تاخیر کی آوازیں اٹھنے پر بھی تحفظات کا اظہار کر چکی ہے جو اس کے سابقہ اتحادیوں جے یو آئی-ف اور مسلم لیگ (ن) کے مؤقف سے بظاہر متصادم ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے انتخابات سے قبل لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے اور نگران وفاقی کابینہ میں نواز شریف کے حامی افراد کو شامل کرنے پر مسلسل تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے کم از کم 5 (نواز شریف کے حامی) اراکین نگران وفاقی حکومت کا حصہ ہیں، اسی لیے پیپلزپارٹی اپنی اِس سابق اتحادی جماعت سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہی ہے۔اس کے علاوہ خورشید شاہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اس ملک میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہا اس لیے پاکستان خط غربت کی لکیر سے نیچے گیا ہے۔ ملک کی بہتر اکانومی جب ہی ہو گی جب سب پارٹیوں کو لیول پلینگ فیلڈ ملے گے۔مزید دیکھیے اس ویڈیو میں