آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام،پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان نے کیا تبدیلیاں کروائیں؟بڑا انکشاف ہوگیا

Oct 10, 2024 | 10:38:AM

Read more!

(24 نیوز)آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام،پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان نے کیا تبدیلیاں کروائیں؟بڑا انکشاف ہوگیا۔

پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ حکومت اور اِس کے اتحادی آئینی ترامیم لائے گیں یہ طے ہے لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ اِن ترامیم کو جسٹیفائی کرنے کیلئے اب طرح طرح کے جواز بھی تراشے جارہے ہیں۔حکومتی جماعت ن لیگ کو یہ خدشہ ہے کہ عدلیہ میں بڑی تبدیلی کے نتیجے میں حکومت کو بڑا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔اور اِس خطرے کا اظہار وزیر دفاع خواجہ آصف کرتے ہوئے کہتے ہہیں کہ عدلیہ میں بڑی تبدیلی کی صورت الیکشن کا آڈٹ ہوسکتا ہے۔دعا ہے یہ لڑائی آگے نہ بڑھے ورنہ معاملات انتہائی سنگین ہوسکتے ہیں۔
یعنی خواجہ آصف کا اشارہ جسٹس منصور علی شاہ کی طرف ہے۔خواجہ آصف اَس خدشے کا اظہار پہلی مرتبہ نہیں کر رہے ۔بلکہ اُنہوں نے کچھ عرصہ قبل بھی ایسا ہی ایک بیان دیا تھا ۔خواجہ آصف نے ماضی میں کیا کہا تھا اِس کی بھی جھلک دیکھ لیتے ہیں ،اب ایک طرح سے خواجہ آصف جسٹس منصور علی شاہ کی ساکھ پر سوال اُٹھا رہے ہیں؟ایک طرح سے اُن پر جانبداری کا الزام لگایا جارہا ہے کہ اگر وہ چیف جسٹس بن جاتے ہیں تو وہ الیکشن کا آڈٹ کرواسکتے ہیں ۔جس کے بعد حکومت کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔اور یہی وجہ ہے کہ حکومت آئینی ترامیم لانا چاہتی ہے ۔اب حکومت اہم آئینی ترامیم کے ذریعے دو کام کرسکتی ہے۔ایک کام یہ ہوسکتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ایکسٹینشن بڑھا دی جائے ۔یا پھر آئینی عدالتوں کا چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو بنا دیا جائے ۔تاکہ الیکشن آڈٹ کا کیس آئینی عدالت میں لگے ۔کیونکہ حکومت موجودہ چیف جسٹس پر پورا اعتماد کر رہی ہے۔لیکن جہاں تک دھاندلی کا سوال ہے تو حکومت کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی تو یہ الزام لگا رہی ہے کہ یہ حکومت دھاندلی سے آئی ہے ۔قادر مندوخیل کا دعوی ہے کہ فیصل واؤڈا نے اُنہیں الیکشن سے پہلے بتا دیا تھا کہ میری نشست مصطفی کمال کو دے دی جائے گی ۔
حکومت کے اپنے ہی اتحادی الیکشن پر سوال اُٹھا رہے ہیں اور حکومت بھی اِس بات پر فکرمند نظر آرہی ہے کہ الیکشن کا آڈٹ ہوگیا تو حکومت خطرے میں پڑسکتی ہے ۔اِسی وجہ سے یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ حکومت اِس بنیاد پر بھی آئینی ترامیم لانا چاہتی ہے۔اب حکومت جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹص تقرری کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہے تو وہیں پر اِن کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی بھی جسٹس منصور علی شاہ پر سوال اُٹھا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ انہیں جسٹس منصور علی شاہ پر اعتماد نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ججز کو کنٹرول کر سکیں گے۔جن کی کوئی نہ کوئی سیاسی وابستگیاں ہیں ۔
اب یہ بات درست ہے کہ عدلیہ اِس وقت تقسیم کا شکار ہے،چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا تناؤ بھی سامنے آیا ہے۔اور پھر حکومت مخصوص نشستوں پر 8 ججز کے فیصلے کو بھی سیاسی بنیسد پر دیا گیا فیصلہ قرار دیتی ہے ۔ شاید یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بلاول بھٹو اِس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ جسٹس مںصور علی شاہ سپریم کورٹ کے ججز کو کنٹرول نہیں کرسکیں گے۔اب یہ وقت بتائے گا کہ جسٹس مںصور علی شاہ چیف جسٹس بن جانے کے بعد عدالتی معاملات کو کیسے چلاتے ہیں لیکن بہرحال حکومت اور اِس کے اتحادی جسٹس مںصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری سے قبل سوالات اور اعتراضات اُٹھا رہے ہیں جس سے لگ رہا ہے کہ حکومت اور اتحادی آئینی ترامیم کو جسٹیفائی کرنے کیلئے جواز تراش رہے ہیں ۔حکومت ہر حال میں آئینی ترامیم لائے گی اور اُس کی منظوری کیلئے ہر آپشنز کو استعمال کرے گی۔اب جیساکہ کل ایاز صادق نے الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرنے کیلئے دوسرا خظ لکھا پھر اِسی طرح اب حکومتی اتحادی پی ٹی آئی کے کئی قانون سازوں کو بھی منانے کی کوشش کر رہا ہے، جن کے پارٹی کی ہدایت کے خلاف ڈالے گئے ووٹ کو سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے بعد شمار کیا جائے گا۔ اب یہی وجہ ہے کہ اسد قیصر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو 16 16 کروڑ روپے کی آفر کی جارہی ہے۔

مزیدخبریں