(امانت گشکوری ) آرٹیکل 63 اے سے متعلق اکثریتی ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا ، سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 63 اے پر نظر ثانی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا ہے ،جس میں اکثریتی ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا ہے ، سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 17 مئی 2022 کا عدالتی فیصلہ آئین کے خلاف ہے،اقلیتی ججز کی رائے کو برقرار رکھا جاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کے مطابق اکثریتی فیصلے کے مصنف جسٹس منیب اختر کو بنچ میں شامل کرنا لازمی ہے، علی ظفر نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو پر بھی اعتراض اٹھایا،علی ظفر نے جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ کے خطوط پر بھی توجہ دلائی،علی ظفر کا کہنا تھا کہ 63 اے نظرثانی درخواست جلد بازی میں سماعت کیلئے مقرر کی گئی،نظرثانی درخواست پر جب بنچ تشکیل دیا گیا تو جسٹس منیب اختر اس کا حصہ تھے، تاہم جسٹس منیب اختر نے بنچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی،جسٹس منیب اختر سے بنچ میں شمولیت کیلئے تحریری درخواست بھی کی گئی،جسٹس منیب اختر نے بنچ میں شمولیت کی درخواست کو منظور نہیں کیا، جسٹس منیب اختر کی جگہ دوسرے جج کو بنچ میں شامل کر لیا گیا۔
سپریم کورٹ کا مزید کہنا ہے کہ جلد بازی میں نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا اعتراض بے بنیاد ہے،سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں کی گئی،جسٹس منیب اختر نے بھی سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کو نظرثانی درخواست یاد نہیں کرائی،اکثریتی فیصلہ اراکین پارلیمنٹ کیلئے پریشانی کی عکاسی کرتا ہے،اکثریتی فیصلے کے مطابق تاریخ میں ایک مرتبہ ایک پارلیمنٹیرین نے باضمیر ہوکر انحراف کا راستہ اختیار کیا،ایسی توہین اراکین پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کیلئے افسوسناک ہے،نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے سیاستدانوں نے حاصل کیا،قائد اعظم محمد علی جناح نے سختی سے آئین کا راستہ اختیار کیا، اکثریتی فیصلے میں قانون کے بجائے غیرقانونی اصلاحات کی بھرمار ہے، صحتمند 41 بار، غیر صحتمند 5 بار، بدتمیزی 9 بار، برائی 8 بار، کینسر 8 بار، خطرہ 4 بار وغیرہ جیسے الفاظ استعمال ہوئے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس عارف علوی نے سپریم کورٹ بھیجا تھا،صدارتی ریفرنس کیساتھ کابینہ سے منظوری یا وزیراعظم کی ایڈوائس کا کوئی حوالہ لف نہیں،ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا بیان ریکارڈ کیا،سابق اٹارنی جنرل نے کہا ہم آرٹیکل 63 اے بارے ایک ریفرنس لا رہے ہیں،سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال اور جسٹس منیب اختر نے حکمنامے میں لکھوایا ریفرنس اور آئینی درخواست کو یکجا کیا جائے۔
آرٹیکل 63 اے کا اکثریتی فیصلہ اراکین اسمبلی کی توہین کے مترادف ہے،اکثریتی فیصلے میں قانونی حوالے دینے کے بجائے غیر اخلاقی الفاظ متعدد بار استعمال کیے گئے،عدالت کو مقدمے کے قانونی اور غیر قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کا اختیار ہے، عدالت کو کسی کی اخلاقیات اور ذاتی پسند نا پسند پر بات کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے،کیا کوئی جج کسی معاملے کے درست،غلط، اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے کا تعین کر سکتا ہے؟جج کو غیر ضروری چیزوں میں الجھنے کے بجائے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دینا چاہیے، نظرثانی کیس میں انحراف سے متعلق فاروق ایچ نائیک نے بین الاقوامی حوالہ جات سے عدالت کی معاونت کی،ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ نائیک نے انحراف سے متعلق دنیا میں جاری پریکٹس سے متعلق آگاہ کیا،اراکین پارلیمنٹ کو ایوان کے اندر بولنے کی مکمل آزادی ہے، اگر ارکان ووٹ نہیں دے سکتے تو یہ پارلیمنٹ میں آزادی اظہار رائے سلب کرنے کے مترادف ہے۔
جاری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اکثریتی فیصلہ آرٹیکل 63 اے میں دی گئی پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کیخلاف ہے، اکثریتی ججز نے آرٹیکل 63 اے کی ذیلی شق چار کی مخصوص زبان پر غور ہی نہیں کیا،اکثریتی فیصلے میں کینیڈا، امریکہ بھارت اور برطانیہ کی عدلیہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا،ایسا لگتا ہے کہ مختلف ممالک میں قوانین اور نتائج کا معلوم کیے بغیر انکا حوالہ دیا گیا،آرٹیکل 63 اے میں پارٹی کے سربراہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پارٹی پالیسی کیخلاف جانے پر کسی رکن کو منحرف قرار دے،اگر پارٹی سربراہ منحرف قرار دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو پہلے اس رکن کو شوکاز نوٹس دینا ہوتا ہے،اگر رکن پارٹی پالیسی کیخلاف جانے کی کوئی معقول وجہ بیان کر دیتا ہے تو ممکن ہے سربراہ اسے منحرف قرار نہ دے،یہ پارٹی سربراہ کا ہی صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی رکن کے منحرف ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے، فیصلہ لکھنے والے اکثریتی ججز نے پارٹی سربراہ کا یہ صوابدیدی اختیار خود لے لیا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق پاپو نیوگنی میں خودکار نااہلی کا قانون نافذ کیاگیا جسے سپریم کورٹ نے ختم کردیا،آئین کے آرٹیکل 63 اے اور اس کی تمام ذیلی شقیں واضح ہیں،آرٹیکل 63 اے کو کسی تشریح کی ضرورت ہی نہیں،آرٹیکل 63 اے میں کہیں نہیں لکھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا،آرٹیکل 63 اے میں یہ بھی نہیں لکھا کہ پارٹی کیخلاف ووٹ دینے پر رکن خود بخود ڈی سیٹ ہو جائے گا،یہ دونوں چیزیں اکثریتی ججز نے اپنے فیصلے میں لکھ دیں۔