روایتی مڈل کلاس کا دیہی نظام 2 قسم کے لوگ یا جوان پیدا کررہا ہے اک وہ لوگ یا بچے جو چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی کو خاندان کی عزت و ناموس اور شان و شوکت کے لیے گزار دی جائے تاکہ خاندان کی ناموس و ڈیرہ آباد رہیں۔
دوسری طرف یہی دیہی روایتی نظام باغی پیدا کررہا ہے جس میں دوسری طرح کے بچے جوان ہو رہے ہیں جو اس روایتی ڈیرہ داری نظام کے باغی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اس نظام سے چھٹکارا پائے جائے اور کئیں دور یورپ یا کسی اور پر سکون جگہ پر ذاتی زندگی کو بسر کیا جائے، اب فیصلہ نظام نہی بلکہ دیہی مڈل کلاس کے روایتی خاندانوں کے بچے خود کررہے ہیں کہ شان و شوکت و ڈیرہ داری یا ذاتی سکون.
روایتی بچے زندگی کی شاموں کو ڈیروں کی نظر کرنے کے عادی ہیں تو دوسری طرف ذاتی زندگی کے خواہش مند چاہتے ہیں کہ شام کو کوہسار یا مال ون میں گزارا جائے، پہلی قسم کے لوگ زندگی بسر کرنے کے بعد جب اپنی خود احتسابی کرتے ہیں تو وہ زندگی سے نادم نظر آتے ہیں کہ زندگی کی بہاروں کو ضائع کردیا گیا ہے، کچھ بہتر نہ کرسکے، جبکہ دوسری طرح کے نوکری پیشہ لوگ کبھی غم اور کبھی خوشی والے ہوتے ہے کہ بیشک مالی حالات بہتر نہیں ہیں لیکن نام تو ہے، اس نام کی خاطر وہ تمام ذاتی سکون و خواہشات کی قربانی دیتے ہیں ۔
ان تمام چیزوں کے معائنہ کے بعد دیہی مڈل کلاس کے روایتی خاندانوں کے بچے اپنی زندگی گزرانے کے اصول طے کررہے ہیں کہ زندگی کو کس طرح بسر کیا جائے.
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترامیم کا پھندا
روایتی دیہی مڈل کلاس کے وہ لوگ یا بچے جو دیہی زندگی، خاندانی روایات یا ڈیرہ داری کو اپنا مسکن بناتے ہیں ان کی بھی مزید 2 اقسام ہیں، ایک وہ لوگ ہیں جو تمام عمر اور زندگی کو ڈیرہ کی نظر کرتے ہیں، ان کا معمول ہر دن اور ہر سال ایک جیسا ہی رہتا ہے جو تبدیلی سے عاری ہوتا ہے، دوسرے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی ذاتی خواہشات کو قربان کرکے کے نوکری یا سرکاری نوکری کی طرف جاتے ہے تاکہ ڈیرہ داری کا نظام اور خاندان کا نام بلند رہے، یہ لوگ آخری عمر کا حصہ اسی ڈیرہ کی نظر کرتے ہے جس کی خاطر انہوں نے زندگی گزاری ہو ۔