( 24نیوز) طالبان نے نئی حکومت کے نامزد وزراء کی حلف برداری کے لئے نائن الیون کا دن کا انتخاب کیا ہے، کیا امریکا کے لئے طالبان کی جانب سے 20 برس بعد یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ دنیا کی کوئی سپر پاور طالبان کو شکست نہیں دے سکتی۔ امریکی سی آئی اے چیف کا بھارت اور پھر پاکستان کا دورہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ امریکا کو احساس ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں نو تشکیل شدہ طالبان حکومت کے ساتھ مختلف امور پر براہ راست بات چیت نہیں ہو سکتی۔ ان خیالات کا اظہار 24 نیوز کے پروگرام ڈی این اے میں سلیم بخاری ، افتخار احمد ، پی جے میر اور جاوید اقبال نے کیا۔
معروف تجزیہ کارسلیم بخاری کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجیوں کا انخلا ممکن ہی نہیں تھا، اگر پاکستان تعاون نہ کرتا۔ امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے اسی لئے سی آئی اے چیف نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی ہے۔
تجزیہ کارافتخار احمد کا کہنا تھا کہ امریکا کو طالبان کی حکومت سازی پر بھی تحفظات ہیں۔ کیونکہ ان کی کابینہ میں خواتین کو نمائندگی نہیں دی گئی اور طالبان نے کرکٹ و دیگر کھیلوں میں خواتین کی شمولیت پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ خواتین کے بنیادی حقوق کی پاسداری کئے بغیر امریکا اور مغربی ممالک طالبان سے تعاون ہر گز نہیں کریں گے۔
تجزیہ کارپی جے میر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں فتح کا جشن عارضی ثابت ہو سکتا ہے ۔شدید مالی مشکلات طالبان کی منتظر ہیں۔ امریکا نے افغانستان کے نو بلین ڈالر منجمد کر دئیے ہیں۔ وہاں قحط اور خوراک کی کمی کا خدشہ ہے۔
تجزیہ کارافتخار احمد نے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں اتنی رقم خرچ ہی نہیں کی، جو بتایا جا رہا ہے۔ اربوں ڈالر خرچ کئے ہوتے تو وہاں غربت کم ہوتی۔ پیسہ آیا ہی نہیں۔ یہ امریکا کا کھیل ہے۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں معروف تجزیہ کار سلیم بخاری نے چیئر مین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی پی ڈی ایم کی جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن پر تنقید سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ الیکشن میں کیا سیاست کی سب کو معلوم ہے۔ سندھ حکومت پیپلزپارٹی کی مجبوری اور مصالحت کی بڑی وجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا عمران خان اس وقت تک اقتدار سے الگ نہیں ہو سکتے جب تک اپوزیشن جماعتیں متحد نہیں ہوں گی اور ایسا نظر نہیں آ رہا۔تاہم افتخار احمد کے مطابق قبل از وقت الیکشن کر کے مخلوط حکومت بھی بنائی جا سکتی ہے جس میں پی ٹی آئی کے ناراض ارکان پیپلزپارٹی اور ق لیگ شامل ہوں۔
پی جے میر نے حکومت کے خلاف مسلم لیگ ن کے وائٹ پیپر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے اپنی تین سالہ کارکردگی پر خطیر رقم سے تشہیری مہم کا آغاز کر دیا ہے اور اپوزیشن کے خلاف بلیک پیپربھی شائع کیا جا رہا ہے ۔جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکل رہی ہیں ۔اشیائے خورو نوش عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔ عوام کی آواز اور جذبات حکومت کے خلاف سب سے بڑا وائٹ پیپر ہیں۔ پینل نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق الیکشن کمیشن کے تحفظات پر بھی گفتگو کی ۔
یہ بھی پڑھیں:سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی انتقال کر گئے