چیف جسٹس کی ایکسٹینشن،ججوں کی تعداد میں اضافہ،فضل الرحمان کی جلد حکومت میں شمولیت ،اہم انکشاف

Sep 10, 2024 | 09:35:AM

Read more!

(24 نیوز)چیف جسٹس کی ایکسٹینشن،ججوں کی تعداد میں اضافہ،حکومت کا کھیل ،فضل الرحمان کی جلد حکومت میں شمولیت ،اہم انکشاف ہوگیا ۔

پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے ایکسٹیشن لینے سے متعلق سارے ابہام دور کردیے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے صاف صاف بتا دیا ہے کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں ایکسٹینشن نہیں لیں گے نئے عدالتی سال کی تقریب کے اختتام پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں تو میں نے انہیں کہا کہ باقیوں کی ملازمت میں توسیع کرنا چاہتے ہیں تو کر دیں لیکن میں اپنے لیے توسیع قبول نہیں کروں گا صحافیوں نے سوال کیا کہ رانا ثنااللہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ اگر تمام جج صاحبان کی عمر بڑھا دی جائے تو آپ بھی ایکسٹینشن لینے پر متفق ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ رانا ثنااللہ صاحب کو میرے سامنے لے آئیں۔ ایک میٹینگ میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سے بات ہوئی تھی، جس میں جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور اٹارنی جنرل بھی تھے لیکن اس میٹنگ میں رانا ثنااللہ نہیں تھے، اس میٹنگ میں وزیر قانون نے کہا تھا کہ تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں تو میں نے اُنہیں کہا کہ باقیوں کی مدت ملازمت میں توسیع کرنی ہے تو آپ کا اختیار ہے لیکن میں اپنے لیے توسیع نہیں لوں گا۔ مجھے تو یہ نہیں پتہ کہ کل میں زندہ رہوں گا بھی یا نہیں یعنی چیف جسٹس نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اِس سال اکتوبر میں ریٹائر ہوکر گھر چلے جائیں گے،اب چیف جسٹس نے ایکسٹینشن لینے سے صاف انکار کیا ہے۔


اب چیف جسٹس کے بیان سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ حکومت چیف جسٹس کی مدت ملازمت بڑھانے کیلئے قانون لارہی ہےگو کہ حکومت کے اندر سے بھی یہ آوازیں آرہی تھی کہ حکومت یہ قانون لانا چاہتی ہے لیکن اِس کے پاس نمبر پورے نہیں،آج بانی پی ٹی آئی نے چیف جسٹس کی ایکسٹینشن کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ایک ہی ادارہ بچا ہے جس کی تباہی کی کوشش ہو رہی ہے،فراڈ الیکشن کو بچانا چاہتے ہیں انتخابی دھاندلیوں کے کھلنے سے ڈرے ہوئے ہیں،قاضی فائز عیسیٰ کو دوبارہ مسلط کیا گیا تو ملکی تاریخ کی بھرپور سٹریٹ موومنٹ شروع کریں گے،قاضی فائز عیسیٰ ملکی تاریخ کا ایک جانبدار ترین جج ہے،اب اِسی طرح تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین کہتے ہیں کہ قاضی صاحب کی ایکسٹینشن کیلئے حکومت جس طرح ہاتھ پاؤں مار رہی ہے،ہم اِس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے،اور وکلا تحریک چلائیں گےاور عوام باہر نکلے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ موجودہ چیف جسٹس ایکسٹینشن لینے سے انکار کرچکے ہیں تو کیا حکومت اب بھی یہ قانون لائے گی ؟ تو اِس کا جواب سیدھا سا ہے کہ حکومت اِس کے باوجود بھی قانون لاسکتی ہے ممکن ہے حکومت آئینی ترمیم میں ججز کی تقرری کا وہی طریقہ کار لے آئے جیسا کہ پاک فوج کے سربراہ کے منتخب کرتے وقت اپنایا جاتا ہےیعنی پانچ سینئر ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس بنانے کا قانون آسکتا ہےجس کے بعد سینئر ترین جج کی بطور چیف جسٹس تقرری کا تصور ختم ہوجائے گا،اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر بھی بال حکومت کے کورٹ میں ہوگی کہ وہ جس کو مرضی چاہے چیف جسٹس بنادے اور آج مجوزہ ترمیم کے حوالے سے اتحادیوں کی اہم بیٹھک بھی ہو رہی ہےوزیراعظم شہباز شریف آج اتحادیوں کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے جس میں موجودہ سیاسی صورتحال اور مجوزہ آئینی ترامیم پر بات کی جائے گی۔یعنی حکومت اہم ترین آئینی ترمیم پر کچھڑی بنا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ حکومت جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نامزد کرے،اب تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ جب چیف جسٹس بنیں گے تو بانی پی ٹی آئی کو کیسز میں ریلیف ملنا شروع ہوجائے گا کیونکہ تحریک انصاف تو یہی سمجھتی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے اُنہیں انصاف نہیں مل سکتالیکن اگر جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بن جاتے ہیں تو پھر اُن کیلئے بھی یہ مشکل ہوگا کہ وہ تحریک انصاف کی توقع کے مطابق اُتریں کیونکہ وہ بھی اپنی ساکھ پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے اور اگر وہ تحریک انصاف کو ریلیف پر ریلیف دیتے ہیں تو پھر حکومت اُن کی جانبداری پر سوال اُٹھائے گی،بہرحال حکومت تو ایوان میں عدلیہ سے متعلق قانون سازی کر رہی ہے،ججز کی تعداد بڑھانے کا بل بھی ایوان میں زیر غور ہے ،اور اِس بل پر بھی یہ تاثر جارہا ہے کہ حکومت ججز کی تعداد بڑھا کر عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے،اور ایسی کوئی بھی قانون سازی تحریک انصاف کو قبول نہیں ہوگی،یہی وجہ ہے کہ علی محمد خان کہتے ہیں کہ اگر عدلیہ کے ججز کی تعداد بڑھانے کیلئے آئین میں چھیڑ چھاڑ کی گئی تو یہ عدلیہ پر حملہ تصور ہوگا۔
اب سیاسی رسہ کشی میں ایک آئینی ادارے کو درمیان میں لایا جارہا ہے جو مناسب نہیں سپریم کورٹ کو گزشتہ کچھ عرصے میں سیاسی کیسز میں اُلجھایا جارہا ہے،جس کی بڑی وجہ سیاسی لیڈر شپ کا ایک دووسرے پر عدم اعتماد ہےسپریم کورٹ میں عوامی مفادات سے جڑے کئی کیسز زیرا لتوا ہیں ،سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، 16 سے 31 اگست تک زیرِ التواءمقدمات کی رپورٹ جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں زیرِ التواءمقدمات کی تعداد 60 ہزار 508 ہوگئی، گزشتہ 15 دن میں 861 مقدمات کا اضافہ ہوا ہے۔سپریم کورٹ میں 33 ہزار 269 سول اور 10 ہزار 335 فوجداری اپیلیں جبکہ 28 از خود نوٹسز زیرِ التواءہیں، سپریم کورٹ میں 2 ہزار 64 نظرثانی درخواستیں زیرِ التواءہیں۔اس کے علاوہ ایچ آر سیل کی 134 درخواستیں اور 3 ہزار 361 جیل پٹیشنز بھی زیرِ التواءہیں۔اب حکومت ججز کی تعداد میں اضافہ بی اِسی بنیاد پر کر رہی ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کو نمٹایا جاسکے لیکن حکومت یا اپوزیشن دونوں اپنا قبلہ درست کرنے کو تیار نہیں ،سیاسی مفادات کی خاطر اداروں کو گھسیٹنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔

مزیدخبریں