بس بہت ہو گیا۔۔بہادر خاتون جس نے گوگل سے ٹکر لی

Apr 11, 2021 | 22:46:PM
بس بہت ہو گیا۔۔بہادر خاتون جس نے گوگل سے ٹکر لی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز) بہت ہو گیا اب مزید برداشت نہیں ہو سکتا۔ایسا ہی کچھ شینن ویٹ سے ساتھ بھی ہوا جو نارتھ کیرولینا میں گوگل کے ایک ڈیٹا سنٹر میں پیش آیا جب کام کے دوران ان کی پانی کی بوتل کا ڈھکن ٹوٹ گیا۔شینن جس ڈیٹا سینٹر میں کام کرتی تھیں اس کا درجہ حرارت کافی زیادہ تھا۔ جب ان کی پانی کی بوتل کا ڈھکن ٹوٹ گیا تو انھوں نے نئی بوتل کا مطالبہ کیا مگر ان کے آجر نے انھیں نئی بوتل دینے سے انکار کر دیا۔

تفصیلا ت کے مطابق گوگل نے اپنے بیان میں کہا کہ کمپنی ملازمین کو اپنی تنخواہ اور کام کے حالات کے بارے میں ایک دوسرے سے بات کرنے کا حق حاصل ہے۔یہ بڑی عجبب سی بات ہے کہ کمپنی کو ایسی بات کہنی پڑی۔

شینن کی کہانی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں ملازمین کے حالات کار اور افسران کے اپنے اختیارات سے تجاوز کی کہانی بیان کرتی ہے۔

شنین نے 2018 میں تاریخ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد ساؤتھ کیرولینا میں گوگل کے ڈیٹا سینٹر میں کام شروع کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے کاموں میں سرورز ، ہارڈ ڈرائیو اور مدربورڈ کو ٹھیک کرنا اور بھاری بھر کم بیٹریوں کو اٹھا کر ادھر ادھر رکھنا شامل تھا۔ ’یہ بہت ہی محنت طلب کام تھا۔‘عام تاثر یہ ہے کہ گوگل کے دفتروں میں بہت تخلیقی ماحول پایا جاتا ہے جہاں ملازمین مزے کرتے ہیں، جہاں انھیں مفت خوراک ملتی ہے اور ٹیبل ٹینس کے میز دفتر میں لگے ہوتے ہیں جہاں وہ کھیل سکتے ہیں۔ لیکن جو کچھ شینن بیان کرتی ہیں وہ اس سے بہت مختلف ہے۔شینن گوگل میں ایک ’ کنٹریکٹر‘ تھیں جس کا مطلب ہے کہ وہ کام تو گوگل کے لیے کرتی ہیں لیکن وہ ملازم ایک اور کمپنی میڈیس کی تھیں اور وہ کمپنی ایک اور کمپنی ایڈیکو کا حصہ ہے۔ملازمت کا یہ پیچدہ نظام گوگل میں بہت عام ہے اور اس کے لیے کام کرنے والے افراد میں سے نصف گوگل کے ملازم نہیں بلکہ وہ ’کنٹریکٹر‘ ہیں۔

شینن کہتی ہیں جب کووڈ کی وبا پھیلی تو اس سے بہت سارے لوگ متاثر ہوئے۔ جو شخص بھی شفٹ پر ہوتا تھا اس کے لیے کام بڑھ گیا لیکن ایک خوشی کی خبر بھی تھی۔گوگل نے مئی 2020 میں اعلان کیا کہ وہ وبا کے دور کو ’پروقار انداز‘ میں گذاریں گے۔ کمپنی نے کہا کہ گوگل کے لیے کام کرنے والے سارے لوگ، اس کے اپنے ملازم اور ایسے کنٹریکٹر جو اصالتاً کام کرتے ہیں، ان سب کو بونس ملے گا۔

شینن بتاتی ہیں کہ جب بونس کا وقت آیا، تو ان کے بینک اکاؤنٹ میں کچھ بھی ظاہر نہ ہوا۔ ’ہمیں تشویش لاحق ہوئی، ہم تو اس بونس کو خرچ کرنے کے پروگرام بنا رہے تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ملازمین نے ایک دوسرے سے بونس کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دیں کہ کس کو کتنا ملے گا۔‘

 جب اس کا انتظامیہ کو پتہ چلا تو ملازمین کو یادہانی کرائی گئی کہ ایسی باتوں سے گریز کیا جائے۔شینن نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ایک مینجر نے تحریری پیغام بھیجا کہ معاوضے کے بارے میں دفتری ساتھیوں کے ساتھ بات چیت کی اجازت نہیں۔ 

شینن کو بالآخر بونس ملا لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس ساری صورتحال سے ان کا دل اچاٹ ہوگیا۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ گوگل کی ملازم بنیں لیکن ان پر یہ آشکار ہوا کہ گوگل میں عارضی سٹاف کا ایک کلچر ہے اور عارضی سٹاف میں کوئی کتنی بھی کوشش کر لے وہ گوگل کا مستقل ملازم نہیں بن سکتا۔

یہ وہ لمحہ تھا جب شینن گوگل کی انتظامیہ کے رویے سے نالاں ہو کر اس نتیجے پر پہنچ گئیں کہ ’بس بہت ہو گیا۔‘کہانی کچھ یوں ہے۔ شینن ویٹ کے ساتھی کو تو نئی بوتل جاری کر دی گئی لیکن شینن کو بوتل نہیں دی گئی۔

وہ گھر گئیں اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو فیس بک پر شیئر کیا۔ انھوں نے لکھا ’میرے آجر نے مجھے بتایا کہ جو ملازمین بھاری وزن اٹھاتے ہیں اگر ان کی پانی کی بوتل یا اس کا ڈھکن ٹوٹ جائے تو وہ نئی بوتل نہیں دیں گے۔ وبا کے دوران نہ تو وہ بریک لے کر پانی پی سکتے ہیں، بس پیاسے رہیں اور کام کرتے جائیں اور شکر ادا کریں کہ ان کے پاس جاب ہے۔ خطرناک کام کی ادئیگی کا ذکر بھی نہ کریں۔ میں نے اسی لیے ایلفابیٹ ورکر یونین جوائن کر لی ہے۔‘

دوسرے دن جب وہ کام پر گئیں تو انھیں ایک کانفرنس روم میں بلایا گیا جہاں تمام مینیجرز بھی موجود تھے۔ انھوں نے شینن کو بتایا کہ انھوں نے فیس بک پر جو پوسٹ شیئر کی ہے وہ کمپنی کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور وہ ادارے کے لیے سکیورٹی رسک بن چکی ہیں۔’مجھے کہا گیا کہ میں اپنا بیج اور اپنا لیپ ٹاپ کمپنی کے حوالے کر کے فوراً دفتر سے نکل جاؤں۔‘

2021 میں گوگل ورکرز کے لیے ایلفابیٹ ورکر یونین قائم کی گئی۔ اسے ابھی نیشنل لیبر ریگولیشن بورڈ نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اسے ’’اقلیتی یونین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔گوگل کے ملازمین کی اکثریت اس یونین کی ممبر نہیں ہے لیکن شینن یونین اس کی ممبر تھیں اور یونین نے ان کا کیس لیا۔

یونین نے فروری میں شینن کی ایما پر دو کیس دائر کیے۔ ایک کیس یونین سے بات کرنے پر معطلی کا تھا جبکہ دوسرا مینجر کی جانب سے اپنی تنخواہ کے بارے میں بات کرنے سے روکے جانے کے خلاف تھا۔

پچھلے مہینے گوگل اور اس کی کنٹریکٹ کمپنی موڈیس اور ایلفابیٹ ورکر کے مابین سمجھوتہ ہو گیا جس کے تحت شینن کی معطلی ختم ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیں:لیگ سپنر زاہد محمود کے کل زمبابوے نہ جانے کی وجہ سامنے آگئی