(امانت گشکوری)چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کےتین رکنی بینچ نےنظرثانی قانون کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سنادیا۔عدالت نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ 2023 کو کالعدم قراردے دیا ۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنادیا،خصوصی بینچ نے 19 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔پارلیمنٹ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 منظور کیا تھا۔ پارلیمنٹ نے ایکٹ کے ذریعے لارجر بینچ کے سامنے نظرثانی اپیل کا حق دیا تھا۔
عدالت عظمٰی کی جانب سےسپریم کورٹ ریویو اینڈججمنٹ ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،ایکٹ کے خلاف 2 مئی کو تین درخواست گزاروں نےعدالت سے رجوع کیا تھا، فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ کیس کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 4 اپریل کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کے حوالے سے فیصلہ کرے گا جس میں 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم آئینی دائرہ کار کی بات کر رہے ہیں، نظر ثانی میں کوئی غلطی ہو تو پہلے کا فیصلہ دیکھنا ہوگا، اپیل میں آپ کو پہلے فیصلے میں کوئی غلطی دکھانا ہوتی ہے، آپ کیس کی دوبارہ سماعت کی بات کر رہے ہیں اس کا کوئی تو گراؤنڈ ہوگا۔
ضرور پڑھیں:معاشی مشکلات تھم نہ سکیں، ڈالر کی قیمت میں پھر اضافہ
انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم آپ کی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ 184 (3) کے خلاف ریمڈی ہونی چاہیے، آپ وہ ریمڈی آئینی تقاضوں کے مطابق دیں، ریمڈی دینے کے گراؤنڈز کو واضح کرنا ضروری ہے، عدالت کو نظر آئے کے ناانصافی ہوئی ہے تو 187 کا اختیار استعمال کر لیتی ہے، عدالت کو آرٹیکل 187 کے استعمال کے لیے اعلان نہیں کرنا پڑتا۔
یاد رہے کہ مئی میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 2023 قانون بنا تھا جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔
حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے 26 مئی کو مذکورہ بل پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ قانون کی حیثیت اختیار کرگیا۔
مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا تھا۔اس نئے قانون کے تحت آرٹیکل 184/3کے تحت کیے گئے فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی اور فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ اپیل کی سماعت کرے گا۔