این سی ایچ آر کی جبری مزدوروں کیلئے انصاف تک رسائی کو بہتر بنانے کی سفارشات
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے جبری مزدوروں کیلئے انصاف تک رسائی کو بہتر بنانے کی سفارشات پیش کردی گئیں۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے ملک میں جبری مزدوری کے خاتمے اور ان افراد کی انصاف تک رسائی کو بہتر بنانے کیلئے ڈسٹرکٹ ویجی لینس کمیٹیوں (ڈی وی سی) کی صلاحیت کو بڑھانے کی تجویز دی ہے۔
یہ سفارشات ایک تحقیقی مطالعے ”پاکستان میں جبری مزدوری کا مسئلہ، پنجاب میں اینٹوں کے بھٹوں کے مزدور اور سندھ میں کرائے کے کسان کا جائزہ “کا حصہ ہیں جسے کمیشن کی جانب سے بدھ کو لانچ کیا گیا۔ تحقیق میں کہا گیا ہے زراعت سے منسلک کرایہ دار مزدور اور بھٹے پر کام کرنے والوں کی حالت میں عدالتی فیصلوں کے نفاذ اور نئی قانون سازی کی بنیاد پر بہتری لائی جاسکتی ہے ۔
اس تحقیق میں بتایا گیا کہ جبری مزدوری کے حوالے سے موجودہ قوانین بشمول بانڈڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ 1992 اور صوبائی سطح پر موجود قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ جبری مزدوری کیلئے ریاستی حکام کی طرف سے عدم دلچسپی پائی جاتی ہے۔
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ کرایہ داری ایکٹ پر عملدرآمد کی کمی کے سبب جاگیرداروں کی شمولیت قرضوں پر غلامی کرنے کو فروغ دے رہی ہے ۔ اگرچہ عدلیہ نے دیہی قرضوں کی غلامی کے خاتمے کے لیے قوانین بنائے ہیں لیکن ان عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد محدود ہے۔
اس موقع پر گفتگو کے دوران چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا کا کہنا تھا کہ مزدوروں کے پاس حفاظتی سامان، طبی سہولیات ، پینے کے صاف پانی اور سماجی تحفظ جیسی ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔ غربت کے شکار مزدور مہنگائی کے اس دور میں آجروں کے استحصال کا شکار ہیں جبری مزدوروں کا کوئی لیبر انسپیکشن نہیں کیا جاتااس حوالے سے ڈسٹرکٹ ویجیلنس کمیٹیوں (DVCs) غیر فعال ہیں ۔
مزید پڑھیں: نشئیوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت مل گئی ، امریکی عدالت نے فیصلہ سنا دیا
اس مطالعے میں ایسے شعبوں میں مزدوروں کی آمدنی بڑھانے پر زور دیا گیا ہے جہاں جبری مزدوری کا رواج ہے وہاں نادرا موبائل یونٹس کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرنے، ریکارڈ رکھنے اور کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی رجسٹریشن کرنے کے بارے میں بھی سفارشات پیش کی گئی ہیں ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی سفارش کی گئی ہے کہ معاشرے کے پسے مزید طبقات کو انتخابی عمل میں شامل کیا جائے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہےکہ کسی خاندان کو ایک یونٹ کے طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور بچوں کو اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔ مطالعہ میں قانون کے ذریعے خریداری کے اخلاقی معیارات کی حوصلہ افزائی کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہےمثلاً اینٹوں کے خریدار بھٹوں سے اینٹوں کی خریداری کرتے وقت یقینی بنا لیں کہ یہ کسی جبری مزدور نے تو نہیں بنائی تاکہ ایک محفوظ اور مہذب ماحول فروغ دیا جاسکے۔