(ویب ڈیسک)بوسٹن میں ایک دانتوں کے ہسپتال میں اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے دانتوں کی روبوٹک سرجری کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق دانتوں کے علاج کیلئے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ اہم تاریخی طبی پیش رفت سامنے آئی ہے، دنیا کی پہلی دانتوں کی روبوٹک سرجری کی ویڈیو آگئی، دو گھنٹے کا آپریشن اب صرف 15 منٹ میں مکمل ہوسکے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بوسٹن کی اسٹارٹ اپ کمپنی پرسیپٹیو کے تیار کردہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کنٹرول کیے جانے والے ایک خود مختار روبوٹ نے پہلی مرتبہ ایک مریض کے دانتوں کی مکمل روبوٹک سرجری کی ہے۔ یہ روبوٹ انسانی دندان ساز سے آٹھ گنا زیادہ تیزی سے سرجری کر سکتا ہے۔وسٹن کی کمپنی پرسیپٹیو کے ذریعہ بنایا گیا یہ نظام ہاتھ سے پکڑے گئے تھری ڈی اسکینر کا استعمال کرتا ہے جو منہ کا ایک تفصیلی تھری ڈی ماڈل بناتا ہے۔
اس ماڈل میں دانت، مسوڑھوں اور دانت کی سطح کے نیچے موجود اعصاب بھی ہوتے ہیں، آپٹیکل ٹوموگرافی یا ’او سی ٹی‘ کا استعمال کرتے ہوئے یہ سرجری نقصان دہ ایکسرے کا استعمال ختم کردیتا ہے۔
’او سی ٹی‘ اپنے والیو میٹرک ماڈلز کی تعمیر کے لیے روشنی کی کرنوں کے علاوہ کچھ استعمال نہیں کرتا۔ اس سسٹم سے تقریباً 90 فیصد درستی کی شرح کے ساتھ کیویٹیز کا پتہ لگایا جاتا ہے۔
اس موقع پر دانتوں کا انسانی ڈاکٹر اور مریض اس بات پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے؟ لیکن ایک بار جب یہ فیصلے ہو جاتے ہیں تو روبوٹک ڈینٹل سرجن ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں۔ وہ آپریشن کی منصوبہ بندی کرتا ہے پھر آگے بڑھتا اور سرجری کر دیتا ہے۔
15منٹ میں سرجری مکمل
روبوٹک سرجری مشین کی پہلی خاصیت میں دانت کی تیاری شامل ہے۔ پرسیپٹیو کا دعویٰ ہے کہ یہ طریقہ کار جس میں عام طور پر دو گھنٹے لگتے ہیں اور جسے دانتوں کے ڈاکٹر عام طور پر دو حصوں میں کرتے ہیں ایک روبوٹک ڈینٹسٹ تقریباً 15 منٹ میں مکمل کر سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ مشین محفوظ طریقے سے کام کر سکتی ہے بہت زیادہ موبائل کنڈیشنز میں بھی انسانوں پر چلنے والے تجرباتی ٹیسٹ کامیاب رہے ہیں۔ انسانوں سے قبل لیبارٹری میں جانوروں پر ٹیسٹ بھی کئے جا چکے ہیں۔
بوسٹن کی کمپنی پرسیپٹیو کے تیار کردہ ڈینٹل روبوٹ کو امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے منظوری دے دی ہے، پرسیپٹو نے ابھی اس کے لیے کوئی ٹائم لائن مقرر نہیں کی ہے کہ اس سسٹم کو کب فروخت کیا جائے گا، عوام کو اس قسم کے علاج تک رسائی حاصل کرنے میں کچھ سال لگ سکتے ہیں۔