اندرا گاندھی نے 1971ءمیں سقوط ڈھاکہ پر کہا تھا کہ آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔لیکن آج 55سال بعد بنگلا دیش میں مجیب الرحمٰن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کو واپس بھارت بھیج کر یہ واضح ہو گیا ہے کہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ،قائم و دائم ہے اورقائد اعظم کی قوم دو ملکوں پاکستان اور بنگلادیش میں بستی ہے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی غداری ،اگر تلہ سازش ، بھارتی دہشت گردی ،مکتی باہنی سب کچھ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا ہے۔ تاریخ کا انصاف دیکھیئے کہ پاکستان توڑنے کی سازش بھارتی شہر اگر تلہ میں ہوئی اور آج اسی سازش کے مجرم شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی حسینہ واجد کو وہی پہنچا دیا۔ حسینہ واجد ملک چھوڑ کر فرار ہو کر اپنے آقاو¿ں کے پاس بھارت پہنچی تو اس کا طیارہ اگر تلہ ہی لینڈ ہوا۔یہ وہی اگرتلہ ہے جہاں پر شیخ مجیب الرحمان نے بھارت کے ساتھ مل کر مکتی باہنی بنائی اور پاکستان سے علیحدگی کا منصوبہ بنایا۔
پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
شیخ حسینہ واجدکے بھارت فرارہونے پر ایک بارپھر یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ 1971 ءمیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش میں بھارت پوری طور ملوث تھا اور بنگالی عوام نے آج یہ ثابت کردیا ہے کہ شیخ مجیب نے بھارت کا ایجنٹ بن کر جوکچھ کیاتھا وہ غلط تھا۔بھارت کے ساتھ بنگلہ دیش میں وہی ہوا جو امریکہ کے ساتھ افغانستان میں ہوا۔ بھارت اب اپنے اس اثاثے کا بوجھ برداشت کرنے کو تیار نہیں، حالات کے پیش نظر امریکہ اور برطانیہ بھی شیخ حسینہ واجد کی میزبانی سے انکار کر چکے ہیں۔بنگلہ دیش میں عوامی انقلاب کے بعد نوبل امن ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر محمد یوسف کی سربراہی میں عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی ہے انہوں نے بھی اپنے خطاب میں بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ پراگندگی کا شکار بنگالیوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے اور اپنی خارجہ پالیسی کا بھی ازسرنو جائزہ لے۔سوال یہ ہے کہ اگر بنگلہ دیش کے عوامی انقلاب کا پس منظر کچھ اور ہوتا تو ڈاکٹر محمد یونس کو اپنے پہلے ہی خطاب میں بنگلہ دیش کی بھارت نواز پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے اور بھارت کواپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا مشورہ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کیخلاف تحریک کا آغاز اگرچہ تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم سے ہوا ۔تاہم طلبہ کے علاوہ عوام الناس کی جانب سے حسینہ واجد کی حکومت اور شیخ مجیب الرحمان کے خاندان کے ساتھ جس نفرت کا اظہار ، شخ مجیب کے مجسموں کو توڑنا‘ حسینہ واجد کے گھر میں لوٹ مار‘ حملے اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے ناطے نفرت کے اظہار کی صورت میں سامنے آیا،پس یہ ثابت ہوا کہ معاشی یا کوٹے کی جنگ نہیں نظریئے کی جنگ ہے۔ورنہ تو شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت کے تسلسل میں بنگلہ دیش کی معیشت مستحکم ہوئی ۔اگر بنگلہ دیش کے عوام کے دلوں میں سانحہ سقوط ڈھاکہ کی کسک موجود نہ ہوتی تو انہیں کیا پڑی تھی کہ وہ بنگلہ دیش کی اس حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے،شیخ مجیب کے مجسمے پاش پاش نہ ہوتے، پاکستان کے پرچم بلند نہ ہوتے۔
بنگا لیوں نے حسینہ سے جان چھڑانے کی ہر ممکن سعی کی ،اندرا گاندھی کلچرل سنٹر کو آگ لگا دی ۔موجودہ تناظر میں آج 71ءمیں مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے والوں کی اولادیں دو قومی نظریئے کے لئے لڑ رہی ہے ۔وہ جان گئے ہیں کہ اصل دشمن کون ہیں۔ اسی لئے تو وہاں پاکستان ڑندہ باد کے نعرے لگائے گئے ۔پاک فوج آج سرخرو ہو گئی اور اس پر لگائے گئے ظلم وستم کے عصمت دری کے تمام تر الزامات جھوٹے ثابت ہوئے۔جن کے باپ دادا افواج پاکستان کے خلاف تھے وہ پاکستان کے نعرے بلند کر رہے ہیں ۔اگر شیخ مجیب الرحمان بنگلہ بندھو بنگالیوں کا باپ تھا تو اس کے خاندان کی یوں تذلیل نہ ہوتی۔مجیب کو اس کی فوج نے تین سال کے اندر پورے خاندان سمیت گو لیوں سے بھون دیا ۔ ماسوائے شیخ مجیب کی دو بیٹیوں شیخ حسینہ واجد اور شیخ ریحانہ کے جو اس وقت جرمنی میں مقیم تھیں۔1971ءمیں مکتی باہنی کے ذریعے بھارت کی جانب سے پاکستان کو سقوط ڈھاکہ کی شکل میں دولخت کرنے کا بدلہ لے لیا گیا ۔آج ان سر فروشوں کی اولادوں نے شیخ مجیب الرحمان کے پورے خاندان کو نشان عبرت بنادیا ۔بے شک قائد اعظم کا نظریہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دو قومی نظرئیے کی جیت ہوئی ہے۔
بنگالی طلباءکی جرات ،حب الوطنی کو سلام جنہوں نے وزیرا عظم حسینہ کی جانب سے حقارت سے رضا کار پکارنے پر، 5 اگست 2024 ءکو وزیر اعظم شیخ حسینہ کی 15 سالہ آمرانہ حکمرانی کا خاتمہ کردیا۔ رضا کار یعنی غدار بنگلہ دیش میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو کہا جاتا ہے۔طلباءنے بتا دیا کہ اصل غدار کون ہیں؟بنگلہ دیش میں 1975 ءمیں پٹھنے والے آتش فشاں کے اندر ایک دفعہ پھر لاوا پکنا شروع ہو چکا تھا، یہ عمل 2009 ءسے شیخ حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوا اور اس کی وجہ تھی بھارت نواز پالیسیاں، لاوا پکنے کے اس عمل میں شدت اس وقت آئی جب ملازمتوں کا بڑا کوٹہ مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والوں خاندانوں کے لئے وقف کیا اس پر طلبا ءنے احتجاج کیا تو ان کے خلاف طاقت کے استعمال کا عندیہ دیا، مظاہرین کے پولیس اور عوامی لیگ کے حامیوں سے تصادم میں 300 افراداپنی جان سے گئے، شیخ حسینہ اس مارچ کو طاقت کے ذریعے کچلنے پر مصر رہیں لیکن بنگالی فوج نے خانہ جنگی کے خدشے کے پیش نظر اپنی عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیااور یوں شیخ حسینہ واجد جس بھارت سے 1981 ءمیں بنگلہ دیش آئیں تھیں اسی بھارت واپس لوٹ گئیں۔ غدار وطن مجیب الرحمٰن کے قتل کے بعدبنگلہ دیش پر بھارتی اجارہ داری کو دوام بخشے کےلئے حسینہ واجد کا انتخاب کیا گیا۔ حسینہ کئی برس د ہلی میں مقیم رہیں۔اس وقت حسینہ واجد کے شوہر ڈاکٹر واجد میاں جو ایک سائنسدان تھے انھیں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت بھی دی گئی۔
اس سے قبل ڈاکٹر واجد میاں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ بھی رہے۔ وہ کراچی نیوکلیئر پلانٹ کے چیف سائنسدان تھے لیکن پھر مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہونے کے بعد ان کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی۔1981 ءتک بنگلہ دیش کے حالات کافی حد تک کنٹرول میں آ چکے تھے، شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش واپس آئیں اور عوامی لیگ کی بھاگ دوڑ سنبھالی، 1996 ءمیں وہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور پھر 2009 ءمیں دوسری دفعہ وزارت عظمی کا منصب سنبھالا، وہ اپنے والد شیخ مجیب کی بھارت نواز پالیسیوں پر عمل پیرا رہیں۔71 ءمیں مکتی باہنی سے لڑنے والے ،پاکستان سے وفاداری کے جرم کی پاداش میں البدر و الشمس جماعت اسلامی کے رہنما¶ں عبدالقادر ملا، محمد قمرالزماں، مطیع الرحمان نظامی اور علی احسن محمد مجاہد کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ پاک فوج کے 195 افروں پر جنگی جرائم کے تحت علامتی مقدمہ بھی چلائے گئے۔ جس کا واحد مقصد بھارت کی خوشنودی کا حصول تھا۔مارچ 2021 ءمیںگجرات کے قصائی نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر بنگلہ دیش کے دورے کے دوران نہ صرف بنگلہ دیش کی آزادی میں سینہ ٹھونک کر بھارتی مداخلت کا اعتراف کیا بلکہ مکتی باہنی کے دہشت گردوں کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ بھارت نے جو کچھ مشرقی پاکستان میں کیا وہی کھیل اب بلوچستان میں کھیل رہا ہے۔ افسوس! پاکستان میں آج بھی کچھ لوگ اور جماعتیںمجیب کو اپنا لیڈر اور محب وطن سمجھتی ہیں، اور شیخ مجیب کی روش پر چلتے ہوئے ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف صف آرا ہیں۔میری تحریک جوانان ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اورمیرا پیغام ہے، اپنے نو جوا نوں کو بنگالیوں نے غدار پہچان لیے اب پاکستانی جوان کی باری ہے!۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر