بنگلہ دیش ! انقلاب اور ردّ انقلاب 

اسلم اعوان

Aug 11, 2024 | 14:58:PM

پُرتشدد مظاہروں کے نتیجہ میں وزیر اعظم حسینہ کی معزولی کو بنگلہ دیشی عوام نے ”دوسری آزادی“ کے طور پر منایا بلاشبہ یہ مکمل کایاکلپ تھی جس نے عوام کی لوح دماغ سے اُس بنگالی عصبیت کے اثرات کو کھرچ ڈالا،جسے شیخ مجیب کی آتشیں تقریروں اور رابند ناتھ ٹیگور کی رومانوی شاعری نے سینچا تھا، اسی ہمہ گیر تغیر نے بنگلہ دیش کی نظریاتی ساخت،سیاست، معیشت اور سلامتی کی صورتحال میں بنیادی دراڑ کی نشاندہی کے طور پر 1971کے انقلاب کے بعد ملک کو خطرناک تبدیلیوں سے روشناس کرا دیا مگر عوامی لیگ کے انحطاط کے نتیجہ میں ابھرنے والی افراتفری نے طاقت کا جو خلا پیدا کیا، اُس بارے واضح نہیں کہ پُرتشدد سیاست کی تاریخ رکھنے والی قوم کے لئے اِس کے نتائج کیا ہوں گے،چنانچہ پیچیدہ تنازعات میں توازن لانے کی خاطر طلبہ تحریک کے زیر اثر عبوری حکومت کو وسیع تر سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت پڑے گی۔ ابتدائی اقدامات کے طور پہ 2018 سے قید بی این پی رہنما خالدہ ضیاءکو رہا اور جماعت اسلامی ، جس پر حسینہ حکومت نے اگست 2023 سے پابندی عائد کر رکھی تھی،کو بحال کر دیا گیا ۔

بنگلہ دیش نے اپنی نصف صدی کی تاریخ میں 29 بغاوتوں کا تجربہ کیا،اس لئے فوج کی کارروائیوں پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے، خدشہ ہے کہ فوج جو بظاہر عبوری حکومت کی تشکیل میں سہولت کار ہے خود اقتدار سنبھال سکتی ہے جس کے نتیجہ میں ملک کی سیکورٹی فورسز میں بھی تقسیم واضح ہو جائے گی ۔ 76 سالہ مطلق العنان حسینہ نے جنوری میں پانچویں بار وزیر اعظم کے طور پر”کامیابی“حاصل کی تاہم حزب اختلاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا، الیکشن آزادانہ تھے نہ منصفانہ ۔حسینہ والد کی خاندان سمیت فوجی بغاوت میں موت کے چھ سال بعد1981 میں عوامی لیگ کی باگ ڈور سنبھالنے واپس آئیں،اپنی ایک دہائی پہ محیط جدوجہد کے دوران کچھ عرصہ گھر میں نظربند رہیں۔ حسینہ نے 1990 میں فوجی آمر حسین محمد ارشاد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے خالدہ ضیا کی بی این پی سے اتحاد کیا لیکن یہ تعلق جلد سیاسی عداوت میں بدل گیا،پھر دونوں جماعتوں کی رقابت نے بنگلہ دیشی سیاست کو مغلوب کر دیا۔حسینہ پہلی بار 1996 میں وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن پانچ سال بعد وہ خالدہ سے الیکشن ہار گئیں۔ خالدہ کو 2007 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے بیدخل کرکے قید میں ڈالنے کے بعد کرائے گئے الیکشن میں حسینہ بھاری اکثریت سے کامیابی ہوئیں، تب سے وہ اقتدار میں تھیں ۔

1971 میں آزادی کے وقت بنگلہ دیش، دنیا کے غریب ترین ممالک میں ایک تھا لیکن 2009 کے بعد سے ہر سال بنگلہ دیشی معشت میں اوسطاً چھ فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا، بنگلہ دیش فی کس آمدنی کے ساتھ 2021 میں ہندوستان کو پیچھے چھوڑ گیا ۔تاہم حسینہ واجد کی حکومت کی طرف سے جماعتی آمریت قائم کرنے اور اختلاف رائے کو طاقت سے کچلنے کی روش نے مقامی سیاست میں تشدد کو فروغ دیا ۔1971 کی مزاحمت کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے الزام میں گزشتہ دہائی کے دوران جماعت اسلامی کے پانچ سرکردہ رہنماوں اور حزب اختلاف کی ایک سینئر شخصیت کو پھانسی دی گئی۔جنگی جرائم کے ٹربیونل میں سیاسی رہنماوں کے خلاف ٹرائلز نے بڑے پیمانے پر احتجاج اور مہلک جھڑپوں کو جنم دیا ۔ حسینہ اور ان کی حکومت کا المناک انجام،یعنی 5 اگست کو بنگلہ دیش سے اس کے شرمناک اخراج نے سب کو حیران کردیا کیونکہ پچھلی ڈیڑھ دہائی میں عوامی لیگ نے ناقابل تسخیر ہونے کی جو تاثر پیدا کیا وہ چند گھنٹوں میں تحلیل ہو گیا، طلبہ تحریک کے جارحانہ مظاہروں نے ریاست کی پُرشکوہ عمارت کو گرا دیا ، مظاہرین نے ایسا اُس ریاستی جبر کے باوجود کیا جس میں کرفیو کے نفاذ کے ساتھ مہلک جنگی آلات سے لیس پولیس، بارڈر گارڈ ، ریپڈ ایکشن بٹالین اور عوامی لیگ کے کارکنان کو حکومت مخالف مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا اختیار دیا گیا تھا ، چنانچہ ملک نے اچانک ایسا گراونڈ سویل دیکھا جس کا کچھ دن پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔6 اگست کو، حسینہ کے بنگلہ دیش سے فرار کے ایک دن بعد، ملک کے واحد نوبل انعام یافتہ، محمد یونس کو عبوری حکومت کی قیادت کے لیے نامزد کیا گیا،جس کا نام اُن طلبہ رہنماوں نے تجویز کیا ، جنہوں نے حسینہ مخالف تحریک کی قیادت کی۔ یونس کا انتخاب اس امرکا ثبوت ہے کہ ماضی کے برعکس ،جب سیاسی جماعتیں عبوری حکومت کی سربراہی کے لئے فوج کی مشاورت سے فیصلے کیا کرتی تھیں، اس بار نئی سیاسی قوت (طلبہ)فیصلہ کر رہی ہے۔

کابینہ سے ملک کے وسیع سیاسی میدان اور سول سوسائٹی کی عکاسی کی توقع کی جا رہی ہے لیکن اسے طلبہ کی طرف سے بیان کردہ عوامی بغاوت کی امنگوں کی نمائندگی کرنا پڑے گی ، جنہوں نے واضح کیا کہ انکی تحریک نہ صرف مطلق العنان حکمران کی معزولی بارے تھی بلکہ ایسے نئے نظام کی تخلیق کی محرک بھی بنے گی جو مستقبل میں آمریتوں کے قدم روک سکے ۔ عبوری حکومت کو معاشی چیلنجز درپیش رہیں گے لیکن آنے والے دنوں میں نئی حکومت کو جس انتشارکا سامنا کرنا پڑے گا اس کے مقابلے میں وہ ہلکے ہیں۔فوری چیلنج انتظامی ڈھانچے پر عوامی اعتماد کی بحالی ہے، حسینہ اقتدارکے پندرہ سالوں میں، ریاست کے انتظامی ادارے اُن کے وفاداروں سے بھر دیئے گئے جنہوں نے سب سے پہلے پارٹی کے مفادات کی خاطر قانون کے دائرے سے ہٹ کر کام کیا ۔ عوامی لیگ کے عہدیداروں نے اپوزیشن کو ستایا، ملک سے پیسہ نکالا اور کلیپٹوکریٹک نظام سے جی بھر کے استفادہ کیا ۔ اسی طرح، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بہت سے لوگ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث رہے، ان کے جرائم کا احتساب اور سسٹم کی تطہیر ضروری ہے ۔حسینہ حکومت کے خاتمہ کے فوراً بعد، ملک بھر سے لوٹ مار، آتش زنی اور اقلیتوں پر حملوں کی اطلاعات موصول ہوئیں،ہجوم کی طرف سے چیف جسٹس کے گھر پر حملہ کے بعد چیخوں کی آوازیں سنی گئیں،اسی دباؤ کی وجہ سے چیف جسٹس مستعفی ہو گئے ۔ صورتحال اب بہتر ہو رہی ہے لیکن حکومت کے خاتمہ کی طرف لے جانے والے ایام ، خاص طور پر جولائی کے وسط میں، جب عوامی لیگ کے سیکرٹری جنرل عبیدالقادر نے دھمکی دی کہ پارٹی کارکنان مظاہرین کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں، پارٹی کے وفاداروں نے دن کی روشنی میں مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا چنانچہ حسینہ اور ان کی پارٹی کے وفادار اب اسے وسیع پیمانے پر افراتفری کا تاثر پیدا کرنا اپنے مفاد میں دیکھتے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں اچانک تبدیلی کے اثرات پورے جنوبی ایشیا پہ پڑیں گے لیکن پڑوسی ملک بھارت میں فوری نمایاں ہوئے۔ حسینہ دہلی اور ڈھاکہ کے درمیان بہتر تعلقات کی بینافشری تھیں اسی لئے جنوری میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد حسینہ کی اِسی بھارت نواز پالیسی کے خلاف ’بائیکاٹ انڈیا‘ جیسی مہمات چلائی گئیں ۔حسینہ کے ہندوستان میں قیام کا دورانیہ بھی نئی دہلی کے لیے چیلنجز کا باعث بنے گا کیونکہ ان کی وابستگی ڈھاکہ میں نئی حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی راہ میں حائل رہے گی، حسینہ کے ہندوستان میں پناہ لینے کا فیصلہ نہ صرف اس کی جغرافیائی قربت کے باعث ہوا بلکہ بھارتی مقتدرہ سے ان کا قریبی تعلق بنیادی وجہ تھی ۔

 2009 سے، ہندوستان حسینہ حکومت کو منفی حالات سے بچانے میں مدد دیتا رہا ۔ بھارت کے تجارتی مفادات اور ملک کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کی خواہش نے بنگلہ دیش کے تئیں انڈین پالیسی تشکیل دی ۔ بھارتی پالیسی ساز، تجزیہ کار اور میڈیا برسوں سے اس پر مصر رہے کہ بنگلہ دیش میں حکومتی تبدیلی سے سیکورٹی کو خطرات پیدا ہوں گے، اسی لئے انہوں نے واضح طور پر یہ تجویز کیا کہ حسینہ کو فتح دلانے والے اسٹیج کے زیر انتظام انتخابات، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے کہیں بہتر ہیں ۔ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ بنگلہ دیش کی جائز سیاسی اپوزیشن جماعتوں بشمول بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کرتے ہوئے کسی ثبوت سے عاری تہمت طرازی کی، اس طرح کے الزامات تیزی سے ہندوستانی میڈیا کے روایتی بیانیہ کا حصہ بنتے گئے ۔اقتدار کے آخری دنوں میں، حسینہ بھی مصر تھی کہ ان کی مخالف تحریک کو”عسکریت پسندوں“ نے ترتیب دیا ،اسی پیغام کو حالیہ دنوں میں کئی ہندوستانی خبر رساں اداروں نے پھیلانے میں تیزی دیکھائی، یہی نقطہ نظر اب بھی ہندوستانی میڈیا کے بیانیہ اور پالیسی سازی کا مرکزی عنصر ہے ۔حسینہ کے ہندوستان میں اترتے ہی، انکی حکومت کا تختہ الٹنے والی عوامی تحریک کو”اسلامی بغاوت“ کے طور پر پیش کرکے بنگالیوں کے سیاسی شعور کی توہین کی گئی ،چنانچہ ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ میں سے کچھ لوگ حسینہ حکومت کی آمرانہ جبریت سے زیادہ ان کی رخصتی کے بعد سے بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کو نمایاں کر رہے ہیں ۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا 6 اگست کو بھارتی پارلیمنٹ میں دیا گیا بیان اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی حسینہ سے دہلی کے قریب ہندن ائیربیس پر ملاقات میں بھی یہی پیغام پنہاں تھا کہ ہندوستان سیکورٹی پہلو سے فکر مند ہے۔ بنگلہ دیشیوں کا بڑا طبقہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ 2009 سے بھارت نے انہیں آزادانہ طور پر اپنے لیڈروں کے انتخاب کے حق سے محروم رکھا، بھارت نے حسینہ کے ساتھ غیر مساوی تعلقات استوار کئے ۔اگر ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ ان بنیادی وجوہات کو تسلیم کر لے جو حسینہ کے زوال کا باعث بنیں توخطہ کے لئے بہتر ہو گا ۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں