میری حکومت گرانے میں امریکا کا ہاتھ ہے، حسینہ واجد کادعویٰ
ایئربیس قائم کرنے کیلئے سینٹ مارٹن جزیرہ امریکا کو نہ دینا میرا جرم بنا دیا گیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)بنگلا دیش میں طلبا کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں مستعفی ہونے اور بھارت میں پناہ لینے والی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کااقتدار سے محرومی کے بعدپہلا بیان سامنے آ گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق شیخ حسینہ واجد نے امریکاکو اپنے 15 سالہ اقتدار کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہاہے کہ ایئربیس قائم کرنے کیلئے سینٹ مارٹن جزیرہ امریکا کو نہ دینا میرا جرم بنا دیا گیا، اگر میں استعفیٰ نہ دیتی تو مجھے لاشوں کا جلوس دیکھنا پڑتا، وہ لاشوں پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے اس کی اجازت نہیں دی۔شیخ حسینہ واجد نے اپنے ہم وطنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسندوں کے بہکاوے میں نہ آئیں۔
یہ بیان دراصل حسینہ واجد کا مستعفی ہونے سے قبل قوم سے کی جانےوالی تقریر پر مبنی تھا جو انہیں نہیں کرنے دی گئی تھی تاہم اب بھارت میں شیخ حسینہ واجد نے کچھ لوگوں سے اپنی اُس نہ ہو نےوالی تقریر کے مندرجات پر گفتگو کی ہے اور این ڈی ٹی وی نے تحریری تقریر کے مندرجات اپنی رپورٹ میں شائع کردیئے جو درج ذیل ہیں۔
76 سالہ شیخ حسینہ کی تقریر کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں انہوں نے امریکا پر الزام لگایا کہ وہ ملک میں طلبا تحریک اور مشتعل مظاہرین کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کی سازش کر رہا ہے،شیخ حسینہ نے دعویٰ کیا کہ بنگلا دیش اور میانمار کے کچھ علاقوں کو ملا کر ایک نیا "عیسائی ملک" بنانے کی سازش ہورہی ہے جس کے لیے امریکا نے سینٹ مارٹن جزیرہ مانگا جہاں وہ اپنا ایئربیس بنانا چاہتا تھا تاہم میں نے ملکی خودمختاری کو داؤ پر نہیں لگایا اور جزیرہ دینے سے انکار کردیا تھا، اگر میں کسی خاص ملک کو بنگلا دیش میں ایئربیس بنانے کی اجازت دےدیتی تو میرے اقتدار کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا،یاد رہے کہ سینٹ مارٹن جزیرے کا رقبہ صرف 3 مربع کلومیٹر ہے اور یہ خلیج بنگال کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔
حسینہ واجد کا مستعفی ہونے اور ملک چھوڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر میں ایسا نہ کروں تو ملک میں مزید خون بہے گا لیکین امید مت چھوڑیں میں جلد واپس آؤں گی، مجھے وقتی طور پر شکست ہوئی ہے لیکن بنگلا دیش کے لوگ جیت گئے وہ لوگ جیت گئے جن کے لیے میرے والد اور میرا پورا خاندان قربان ہوگیا تھا، عوامی لیگ ہر بحران کے بعد کھڑی ہوئی ہے۔
شیخ حسینہ واجد نے تقریر میں وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے احتجاج کرنےوالے طلبا کو کبھی ضاکار نہیں کہا بلکہ طلبا کو اکسانے کے لیے میرے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔یاد رہے کہ 1971 میں سقوط ڈھاکا کے وقت عوامی لیگ کی جانب سے پاکستانی فوج کے حامیوں کو رضاکار کہا جاتا تھا اور جب یہ لفظ حسینہ واجد نے طلبا مظاہرین کے لیے استعمال کیا تو اس کا شدید ردعمل سامنے آیا۔