(24 نیوز)بھار ت میں پنجاب اینڈ ہریانہ ہائیکورٹ نے مسلمان لڑکیوں کیلئے شادی کی عمر سے متعلق ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے کہا کہ مسلم لڑکی 18 سال سے کم عمر کی ہونے کے باوجود پسند کے کسی بھی لڑکے سے شادی کر سکتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ وہ حیض کی عمر کو پہنچ چکی ہو۔ گویا کہ 14 یا 15 سال سے زیادہ عمر کی مسلم لڑکی اپنی پسند کی شادی کرنے کیلئے آزاد ہے اور اسکے خاندان والے کسی طرح کی مداخلت نہیں کر سکتے۔
بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق پنجاب اینڈ ہریانہ ہائیکورٹ نے یہ فیصلہ مسلم پرسنل لا کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے سنایا ہے۔ ہائیکورٹ نے کہا کہ مسلم پرسنل لا کے تحت 18 سال سے کم عمر کی مسلم لڑکی اپنی مرضی سے کسی بھی لڑکے سے نکاح کر سکتی ہے۔ قانونی طور پر خاندان اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس الکا سرین نے مسلم مذہبی کتاب کے آرٹیکل۔195کی بنیاد پر سنایا ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب اینڈ ہریانہ ہائیکورٹ میں اس معاملے پر موہالی کے ایک مسلمان جوڑے نے ایک درخواست دائر کی تھی۔ 36 سالہ لڑکے اور 17 سالہ لڑکی کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی اور دونوں نے گذشتہ 21 جنوری کو مسلم رسم و رواج کے مطابق نکاح کر لیا۔ لیکن انکے اہلخانہ اس رشتے سے خوش نہیں تھے۔ دونوں کو رشتہ داروں سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور ان دھمکیوں کی وجہ سے دونوں نے عدالت کا رخ کیا۔عدالت میں لڑکے اور لڑکی نے اپنی سیکورٹی کا مطالبہ کیا۔ عدالت میں جب سماعت ہوئی تو گھر والوں کی دلیل یہ تھی کہ لڑکی نابالغ ہے اس لئے یہ نکاح جائز نہیں ہے۔ تاہم درخواست دہندہ کا کہنا تھا کہ مسلم پرسنل لاکے تحت 15 سال کی مسلم لڑکی اور لڑکا دونوں شادی کرنے کے اہل ہیں۔پورے معاملے پر غور کرنے کے بعد جسٹس الکا سرین نے سر ڈی فردون جی ملا کی کتاب ’پرنسپل آف محمڈن لا‘ کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’مسلم لڑکا اور لڑکی اپنی پسند کے کسی بھی شخص سے شادی کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ انھیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔