بس کرو بہت ہو گیا صرف اپنا نہ سوچو ملک اور قوم کا بھی سوچو:حامد میر
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ حکمرانوں کو انور مقصود کا خوف ہے، انور مقصود کوئی مولا جٹ نہیں۔حکمرانوں سے کہوں گا بس کرو بہت ہو گیا صرف اپنا نہ سوچو ملک اور قوم کا بھی سوچو۔
صحافی حامد میر نے اُردو کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے امجد اسلام امجد کا کالم جو ان کی وفات سے 5 دن پہلے شائع ہوا، جب وہ عمرہ کیلئےگئے تھے۔جس کا عنوان تھا “مکہ اور مدینہ کا سفر”۔ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں انہوں نے لکھا کہ جب وہ خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھے تھے اور ویل چئیر پر تھے امجد اسلام امجد نے خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کربہت دعائیں مانگیں ۔انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ میں نے ایک اور دعا بھی مانگی اور اس دعا مانگتے ہوئے مجھے بہت اچھا لگا اور وہ دعا یہ تھی کہ اے اللہ وہ تمام لوگ جنہوں نے زندگی میں میرے ساتھ بدسلوکی کی ہے ان سب کو معاف کر دے اور ان کا بھلا کر۔ ان سب کیلئے خیر کی دعا مانگی۔
حامد میر نے کانفرنس میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امجد اسلام امجد کے حوالے سے اگر کوئی بات آپ ان کی سیکھنا چاہتے ہیں تو یہ کہ زندگی میں معاف کرنا سیکھیں۔ کسی نے آپ کی ذات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اسے معاف کر دیں لیکن اگر کوئی آپ کے ملک کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسے معاف نہیں کرنا۔
صحافی حامد میرنے احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو مبارک باد دی کہ انہوں نے شہر لاہور میں یہ ادب کا میلہ سجایا۔ جس طرح احمد شاہ پاکستان کی سب ثقافتوں کو اکھٹا کر کے ایک گلدستہ آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں، میرے پاس ان کا ایک راض ہے اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ‘ہو ں تو میں ذات کا صحافی ہی نہ تو شرارت سے باز نہیں آوں گا’.
جیسا کہ احمد شاہ آپ کو بتا رہے تھے کہ میں سندھ کا بیٹا ہوں اور میں کراچی سے آیا ہوں بڑی اچھی بات ہے کہ سندہ کے لوگ ادھر آئے۔ یہ سندھ کے بیٹے ضرور ہیں لیکن ان کا گاؤں خیبر پختون خوا میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنا لیا انہوں نے سندھ کو اور دل اپنا لاہور کو دینے آئے ہیں تو انہوں نے اپنی ذات میں 3 صوبوں کو اکٹھا کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں سب صوبہ نظر آ رہے ہیں لیکن بلوچستان نظر نہیں آ رہا البتہ ایک لاہوری بلوچ ضروربھیٹھا ہے کامران لاشاری صاحب کی صورت میں۔
ضرور پڑھیں :عمران خان کا شوکت خانم کے پیسے سرمایہ کاری پر لگانے کا اعتراف
حامد میر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات اس لیے کی کہ جب بلوچستان کے لوگ ہمیں ملتے ہیں تو یہ لاہور والو ں کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔میڈیا کو اتنی آزادی نہیں ہے جتنی آپ سمجھتے ہیں ایک (غیر اعلانیہ سنسر شپ) چل رہی ہے پاکستان میں۔
انہوں نے اپنے خطاب کے دوران ملتان کا ذکربھی کیا کہ آپ نے کبھی سنا ہے کہ ملتان کی سائڈ پر لوگ ایک بات کہتے ہیں، “اساں قیدی تخت لاہور دے’ ۔ صوبہ پنجاب کے اندر بھی جو لوگ ہیں وہ کبھی کبھار لاہور والوں سے شکوہ کیلئے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، یہ بات اسی لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے تو جو دل ہوتا ہے اگر جسم کے اعضاء میں کوئی بھی درد ہو تو وہ دل کو بھی محسوس ہوتا ہے لیکن پاکستان کے کچھ اعضا ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ لاہور کے لوگ ان کا درد محسوس نہیں کرتے، 3 روز میلے میں وہ درد محسوس کروانا ہے ،لاہور والو ں نے وہ محسوس کرنا ہے اور آپس میں مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے درد کا اعلاج بھی دریافت کرنا ہے۔
انہوں نے احمد شاہ صاحب کا لاہور میں اس میلہ پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے کوشش کی لوگ بغیر ٹکٹ کہ میلہ میں آ ئیں اوروہ لوگ زیادہ سے زیادہ آئیں جو ٹکت خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اور ساتھ ہی گزارش کرتے ہوا کہ اگلی بار جب وہ یہ میلہ لاہور میں سجائیں تو کراچی کی طرح لاہور میں بھی بلوچستان والو ں کو بلائیں اور جو لاہور کے نوجوان ہیں ان کا آپ پاکستان کے نوجوانوں کے ساتھ ڈائیلاگ کروائیں۔ خیبر پختون خوا کے لوگ جو سرحدوں پر ہیں اور پشاور تک نہیں آسکتے ان کو بھی آپ یہاں تک بلا سکتے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر نوجوانوں سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے سامنے جو روشن چہرے اور چمکتی آنکھیں نظر آ رہی ہیں اس سے مجھ میں ایک امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی مشکلات ہوں پاکستان کے نوجوانوں کے ہمیشہ حوصلے بلند رہتے ہیں۔ اس میلہ کی جو گفتگو ہے وہ بہت کھل کر ہونی چاہئے ۔ اپنے دل کی ہر بات آپ یہاں کر سکتے ہیں کھل کر اور اچھی نیت کے ساتھ کیونکہ نیت کا پھل اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور آخر ت میں میری دعا ہے کہ جو ثقافتی میلہ لگا ہے اس کے اچھے نتائج نکلیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو حکمرانوں کے بارے میں باتیں ہوں گی وہ حکمرانوں تک لازمی جانی چا ہئے ، حکمرانوں سے گزارش ہے کہ کہ بس کرو بہت ہو گیا صرف اپنا نہ سوچو ملک اور قوم کا بھی سوچو۔ ورنہ انور مقصود صاحب تو بیٹھے ہیں نہ یہاں ۔
جس پر نوجوان ہنس پڑے اور اس پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا میں نے انور مقصود کا ذکر کیا مولا جٹ کا ذکر تو نہیں کیا۔