ممنوعہ فنڈنگ کیس، پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن فیصلے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ

Jan 11, 2023 | 17:30:PM

(24 نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کےخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا،جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ہم یہاں سیاسی معاملات نمٹانے نہیں قانونی فیصلے کرنے بیٹھے ہیں، الیکشن کمیشن نے صرف آئینی طور پر اپنا کام کرنا تھا جو فنڈز ضبطگی تک محدود ہے،ہم یہ واضح کریں گے شوکاز کوئی بے مقصد نہیں بامقصد کارروائی ہے، اگر ہر حال میں پہلے فیصلے پر رہنا ہے تو شوکاز کا فائدہ نہیں۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے،آپ نے انہیں مطمئن کرنا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا اگر پی ٹی آئی فنڈنگ سے متعلق نئے شواہد سے مطمئن کرے کہ وہ ممنوعہ نہیں تو رقم ضبط نہیں ہو گی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی، پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے کہا الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو فارن ایڈڈ جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا ڈکلیئریشن غلط ہے، سیاسی جماعتوں کے اکاو¿نٹس کا معاملہ چارٹرڈ اکاو¿نٹنٹ دیکھتا ہے، الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں ہمیں ٹارگٹ کیا گیا ہے۔
 چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کوئی ڈکلیئریشن تو دیا ہی نہیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کہیں آرڈر، کہیں رپورٹ تو کہیں محض رائے کہا جارہا ہے،میری نظر میں یہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ہے۔
 الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ یہ صرف رپورٹ نہیں فیصلہ ہے، الیکشن کمیشن فیصلہ دیئے بغیر شوکاز نوٹس جاری نہیں کرسکتا تھا، بیرسٹر انور منصور نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے آئی کے کو نوٹس ہی نہیں کیا، چیف جسٹس نے کہا آئی کے کا کیا مطلب ہے؟ انور منصور نے کہا میری مراد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ہیں، چیف جسٹس نے کہا ہمارے لیے تو وہ درخواست گزارہی ہیں، انور منصور نے عمران خان کیلئے آئی کے کی اصطلاح استعمال کرنے پر معذرت کرلی۔
 چیف جسٹس نے کہا کیا آپ کوخدشہ ہے عمران خان کواس معاملے پرنااہل کردیا جائے گا؟ الیکشن کمیشن اس شوکاز نوٹس میں کوئی ڈکلیئریشن نہیں دے گا، نہ کریمنل کارروائی کرے گا، الیکشن کمیشن کا شوکاز نوٹس صرف فنڈز کی ضبطگی کی حد تک ہے، اگر کسی جماعت کے فنڈز ضبط ہو جاتے ہیں اور پارٹی اکاؤنٹس میں رقم ہی نہ ہو تو پھر کیا ہو گا؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا اس پر معاونت کروں گا۔
 جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا اختیار تھا؟ کس قانون کے تحت آپ نے معاملہ وفاقی حکومت کو ریفر کیا؟ یہ تو ایک جماعت کے خلاف اپنا زہر نکالنے جیسا ہوا کہ معاملہ حکومت کو بھیج دیا، آپ نے قرار دیا ایک بندے کیلئے کہ وہ سچا نہیں، کل کوئی اس پر 62 ون ایف کی کارروائی شروع کر دے تو کیا ہو گا؟ اس دوران پی ٹی آئی نے شوکاز کا کامیاب دفاع کر لیا تو کیا ہو گا؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا پی ٹی آئی نے دفاع کرلیا تو معاملہ ازخود ختم ہو جائے گا، ہم وفاقی حکومت کو معاملہ نہ بھی بھیجتے تو وہ کارروائی کرسکتے ہیں، رپورٹ اب پبلک ہے، اس پر کوئی بھی کارروائی کرسکتا ہے۔ ہم کھلے ذہن کے ساتھ پی ٹی آئی کو شوکاز میں سنیں گے۔
 جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے یہ ایک سادہ سی بات ہے جس پر کہانی 6 سال سے چل رہی ہے، ہر جماعت نے فنڈز کی تفصیلات فراہم کرنی ہیں، الیکشن کمیشن مطمئن نہ ہو تو شوکاز کر کے فندز ضبط ہوتے ہیں۔
 چیف جسٹس نے کہا آپ کو شوکازنوٹس جاری کیا گیا، آپ نے شواہد کیساتھ جواب دے کر انہیں مطمئن کرنا ہے، انور منصور نے کہا الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ ہم نے جو فیصلہ کرلیا اس سے پیچھے نہیں جائیں گے۔ ہائیکورٹ الیکشن کمیشن سے کہے کہ وہ اپنی رپورٹ کے آخری دوجملے حذف کردے۔ 
چیف جسٹس نے کہا یہ اب انہوں نے تو نہیں کرنا، یہ جوڈیشل ریویو میں عدالت نے دیکھنا ہے، الیکشن کمیشن اب عدالت کے سامنے بیان حلفی تو نہیں دے سکتا کہ وہ کیا کریں گے، الیکشن کمیشن حکام کہہ تو رہے ہیں کہ وہ آپ کوسنیں گے۔
 جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کو مطمئن کردے فنڈز ممنوعہ نہیں تو کیا ہو گا؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا ہمارے پاس اپنے فیصلے پر نظرثانی کا اختیار نہیں ہے۔ 
چیف جسٹس نے کہا تو پھر پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا مقصد کیا ہوا؟ آپ کے پاس فیصلہ بدلنے کا اختیارنہیں مگرنئے حقائق سامنے آجائیں تو؟ آپ کو پتہ چل جائے فنڈزممنوعہ نہیں تو فیصلہ تو بدلنا ہوگا، عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

یہ بھی پڑھیں: نجی بینکوں کے پاس موجود زرمبادلہ ذخائر استعمال کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں: اسحاق ڈار

مزیدخبریں