عظیم بزرگ صوفی شاعر حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ کا مشہور شعر ہے کہ’’ شالا مسافر کوئی نہ تھیوے، ککھ جنہاں تھیں بھارے ہو‘‘
یہ شعر دیار غیر میں موجود تارکین وطن کی طرف سے اکثر سننے کو ملتا ہے،دنیا بھر میں ایک کروڑ کے قریب پاکستانی تارکین وطن جہاں اپنی اور اپنے خاندانوں کی ذاتی زندگیوں کو معاشی مشکلات سے نکالنے اوراپنی قسمت چمکانے کیلئے گھروں سے ہزاروں کلومیٹر دورعملی زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہیں،وہیں ان کی کاوشوں کا ایک اجتماعی اثر دنیا میں پاکستان کے سفیر کا بھی ہے اور ملک کیلئے قیمتی زرمبادلہ کمانے والے ایک بڑے اورمؤثر طبقے کی حیثیت بھی انہیں حاصل ہے،جہاں ہم ان نجی اور قومی فوائد کا ذکر کرتے ہیں تو وہاں ہمیں ان مشکلات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے جو ان تارکین وطن نے اس مہم جوئی کے دوران جھیلی ہیں اور زندگی بھر ان کا سامنا کرتے رہتے ہیں، شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور شعر ہے کہ ۔۔۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں۔۔
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
دیارغیر میں اوور سیز پاکستانیوں کا اللہ کی ذات کے بعد سب سے بڑا سہارا اپنی تارکین وطن کمیونٹی کا باہمی اتحاد اور ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ ہوتا ہے، لیکن ایک مخصوص سوچ رکھنے والے کچھ آسودہ حال لوگوں نے اپنی لیڈرشپ چمکانے کیلئے اوورسیز کمیونٹی کے آپس کے اتحاد و اتفاق کی طاقت کو جس طرح نااتفاقی کی آگ کے دریا میں ڈبونے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں،اس کی وجہ سے دیار غیر میں موجود ہمارے ان بھائیوں کے ہاتھوں سے امداد باہمی کی یہ تلوار چھینی جا رہی ہے اور بات اس طرف لے جائی جا رہی ہے کہ جس کے بارے میں حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
" ککھ جنہاں تھیں بھارے ہو"
پاکستانی کمیونٹی کے آپس کے اتحاد و اتفاق اور ایک دوسرے کی مدد کے جذبے کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانے و قونصل خانے، ہماری وزارت خارجہ اور سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت جیسے ادارے بھی کوئی مشکل پڑنے پر اوورسیز کمیونٹی کا بڑا سہارا ہوتے ہیں،لیکن حکومت دشمنی اورریاست دشمنی والی جس طرح کی منفی سرگرمیوں کی طرف ہمارے مخلص اور جذباتی تارکین وطن کو دھکیلا جا رہا ہے اس کا ایک خوفناک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اپنے ملک کے ان اداروں سے بھی آزمائش کی گھڑی میں پھر ضروری مدد و رہنمائی نہ ملے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایک کروڑ اوور سیز پاکستانیوں میں سے بمشکل ایک دو فیصد ایسے ہوں گے جو مالی اور قانونی طور پر اتنے مستحکم ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنی کمیونٹی اور حکومت و ریاست کی طرف سے کسی مدد کی حاجت و ضرورت نہیں، لیکن اکثریت کا معاملہ یکسر مختلف ہے،اوورسیز ورکرز کی بہت بڑی اور بھاری تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کے سروں پر اپنی ملازمت، کاروبار، ویزے، ورک پرمٹ سمیت مختلف حوالوں سے ہمیشہ تلوار لٹکی رہتی ہے، اس لیئے اوورسیز پاکستانی کمیونٹی کو بحیثیت مجموعی کسی پرخطر ایکٹیویٹی میں ڈالنا نہ تو اپنی کمیونٹی سے وفاداری ہے اور نہ ہی ملک و قوم سے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ حالیہ چند برسوں سے کچھ انتہا پسند آسودہ حال پاکستانی تارکین وطن نے اپنی کمیونٹی کو انتہا پسندانہ سیاسی سوچ اور تفرقے بازی میں ڈال کر ان کے مستقبل کیلئے ایسے خطرات کو دعوت دینا شروع کر رکھی ہے کہ جس کی وجہ سے کسی روز ہمارے یہ بھائی اور بہنیں کسی بڑی افتاد میں پھنس سکتے ہیں، کسی ملک کی حکومت متنازع سیاسی و سوشل میڈیا ایکٹیویٹی پر ایکشن لینے پر تل گئی تو وہ نام نہاد لیڈرشپ ان کی کس حد تک مدد کرسکے گی جو مسلسل انتہا پسندی پر مائل ہے، اس کا اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں، خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب آپس کے اتحاد و اتفاق کو آگ لگانے والے موجودہ طرز عمل کے باعث جب آپس کی نااتفاقیوں کی وجہ سے دیار غیر کے مختلف ممالک کے مختلف شہروں میں موجود اوور سیز پاکستانیوں کی اپنی طاقت بھی کمزور ہو چکی ہو تو پھر کیا ہوگا؟ یہ ہم سب کے سوچنے کا مقام ہے۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پاکستانی تارکین وطن دنیا بھر میں پاکستان کے سفیر ہیں،اور پچھلے 76 برسوں سے انہوں نے ہمیشہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر دیارغیر میں پاکستان کی بہترین نمائندگی کی ہے،انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حالیہ چند برسوں میں کچھ لوگوں نے ذاتی نام و نمود ، نجی مفادات اور اپنی سیاسی وابستگیوں کا اسیر ہو کر اوور سیز پاکستانیوں کے پون صدی سے قائم قومی تشخص کو مجروح کرنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں، اپنی کمیونٹی میں نااتفاقی پھیلانے،پاکستانی تارکین وطن کو ہرملک کے اندر ٹکڑوں میں بانٹنے اور گھر کی لڑائی باہر گلی، چوک اور چوراہے میں لڑنےکی کوشش انتہائی افسوسناک نتائج سے دوچار کر رہی ہے، اس رویئے سے ایک تو بحیثیت پاکستانی کمیونٹی دیار غیر میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے تو دوسری طرف ان منفی سرگرمیوں سے ہر ملک میں پاکستانی کمیونٹی کے اتحاد اور طاقت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ماضی میں بھی ہمارے اوورسیز بھائی اور بہنیں پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سے جذباتی وابستگی رکھتے تھے، لیکن ایسی پولرائزیشن کا بحیثیت پاکستانی کمیونٹی کبھی شکار نہیں ہوئے، جس طرف حالیہ چند برسوں کے دوران کچھ اوورسیز پاکستانی ایکٹیوسٹس نے بدقسمتی سے انہیں دھکیلنا شروع کر رکھا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اوور سیز پاکستانی کمیونٹی ایسے کرداروں کے اصل عزائم کو پہچانے کہ جو ذاتی فائدے کیلئے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں کروڑوں اوورسیزپاکستانیوں کے راستے میں کانٹے بکھیررہے ہیں،اوور سیز پاکستانیوں کی خاموش اکثریت کو اب یہ واضح کرنے کیلئے بولنا ہو گا کہ انہیں کچھ لوگوں کے ذاتی عزائم کی جنگ کا ایندھن نہیں بننا اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ذاتی دشمنیاں پال لینے کی پرانی،اجڈ اور گنوار سوچ کا شکار نہیں ہونا، ہمیں ایک بار پھر اوورسیز پاکستانیوں کے اس روایتی بھائی چارے کو فروغ دینا ہو گا کہ جس کے تحت ہماری یہ قابل فخر روایات رہی ہیں کہ ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کی سیاسی و مذہبی وابستگیوں کا دل سے احترام کیا،اسی جذبے کے احیاء کیلئے اوورسیز پاکستانی کمیونٹی کی خاموش اکثریت کو اب آگے بڑھنا ہوگا۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تارکین وطن کو دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت اور ملک کے "عوامی نمائندوں" کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن اگر وہ مسلسل منقسم رہیں گے یا اپنی ہی ریاست کے مخالف نظر آئیں گے تو یہ افسوس ناک صورتحال قوم کی شبیہہ کو داغدار کردے گی،یہ افسوس ناک منظرعالمی پلیٹ فارمز پربحیثیت مجموعی ہماری اوورسیز کمیونٹی کی ساکھ کو بھی مجروح کرتا ہے، ملک و قوم کی اجتماعی و انفرادی تعمیر و ترقی کے ایک متفقہ وژن کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمارے تارکین وطن بہن بھائیوں کو پاکستان اور دنیا کے درمیان ایک پل کے طور پر اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہو گا، باہمی احترام اور افہام و تفہیم کو فروغ دے کر اوورسیز پاکستانی کمیونٹی اپنی طاقت اور مقام کو واپس حاصل کر سکتی ہے، انشاء اللہ
ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ ہمارے اپنے تارکین وطن کے کچھ طبقات تیزی سے پولرائز ہوتے جا رہے ہیں،یعنی دو انتہاؤں میں تقسیم ہو کر اتنے دور جا رہے ہیں کہ جس کے بعد شاید واپسی ممکن نہ رہے،اس انتہا پسندی کا نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر "شدت پسند اوورسیز لیڈرز" پاکستان کے وسیع تر مفادات پراپنی ذاتی سیاسی وابستگیوں یا بیرونی ایجنڈوں کو ترجیح دینے لگ گئے ہیں،اس افسوس ناک طرزِ عمل کے نتیجے میں غیر متوقع نتائج برآمد ہوناشروع ہوئے تو ان کی چیخیں نکلنے لگیں، غیر متوقع نتائج میں اوورسیز بھائیوں کا پاکستان میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رابطہ منقطع ہونا یا دیار غیر میں اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے اپنے ہوم ڈسٹرکٹس میں اپنے پیاروں کیلئے مسائل پیدا کرنا بھی شامل ہے،تفرقہ انگیز بیانیے کو پھیلا کر پاکستان کی بین الاقوامی حیثیت کو کمزور کرنے جیسی مختلف افسوسناک سیچوایشنز بھی ان منفی سرگرمیوں کا حصہ ہیں جو حالیہ چند برسوں میں کی گئیں، اپنے آپ کو، اپنے رشتے داروں کو یا پوری اوور سیز کمیونٹی کو ایسے غیر متوقع حالات سے دوچار کرنا بلاشبہ حکمت و سمجھداری کے خلاف ہے، اس لیئے خبردار کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ نفرت کی آگ کے دریا میں ڈبکی لگا کر اتنا دور نہیں جانا چاہیے کہ کنارے پرواپسی ممکن نہ رہے، "مشتری ہوشیار باش"
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر