اُس مدھو بالا کو وسطی ایشیا کی انسانی منڈی سے خریدا گیا نوجوان دوشیزہ، خوبصورت ،گورا رنگ ، ستواں ناک ، متناسب جسم اور اچھی بود و باش اس لڑکی کے بے شمار خریدار ہندوستان کے طول عرض میں پھیلے راجے مہاراجے ہوسکتے تھے ،اچھے ہیروں کے عوض اسےکسی کے ہاتھ اچھے داموں بیچا جاسکتا تھا ، سوداگر اسی خواب و خیال میں اس لڑکی کو باقی غلامان اور کنیزوں سے ذیادہ اہمیت دے رہا تھا اسے اچھے کپڑے پہنائے ،بہترین خوشبویات لگائی گئیں اور اپنا بہترین سپاہی اس کی حفاظت پر معمور کیا سفر لمبا اور تھکا دینے والا تھا پیچ دار پہاڑیوں کے دشوار گزار رستوں پر ہونے والا یہ سفر دنوں ہفتوں نہیں مہینوں پر محیط تھا ،جنگل پھولوں کی مسحور کُن مہک ،چاندنی رات میں جنگل کا گھپ جھپ اندھیرا اور اس میں پالکی میں سوئی چاندی جسم کی جوان لڑکی کس کا دل نہ مچل جائے شراب کے نشے میں دھت سوداگر کا بہترین سپاہی جو لمبے سفر میں لڑکی سے کافی حد تک مانوس ہوچکا تھا ،لڑکی کے نزدیک ہوا تو سوئے ہوئے گورے بدن میں سنسناہٹ ہوئی ،لڑکے نے جسم کی گرمی اور ازبک گھوڑیوں جیسی جلد کی تھرتھراہٹ کو اپنے ہاتھوں سے چھوا تو دونوں ایک جیسے نشے میں نہا گئے اور پھر وہ ہوا جو نہ ہونا چاہیے تھا ۔
ضرور پڑھیں :میرے نوجوانو! خوف کے بُت توڑ دو
کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی یہاں سے شروع ہوتی ہے، دوران سفر ہی سوداگر کو اس معاشقے کا علم ہوا سوداگر ہفتوں کا سفر کرکے ہندوستان پہنچا تو اس کے اپنے خرم کی خواتین نے بتایا کہ جس نایاب ہیرے کو وہ بازار میں بیچنے کے لیے لایا تھا وہ اب انمول نہیں رہا لڑکی ماں بننے والی ہے تاجر نے محافظ سپاہی کو بلایا جُرم کا اعتراف کرایا اور اُس کی گردن جلاد کے ہاتھوں کٹوا دی، لڑکی کا چہرہ مسخ کرایا اور اس کو شہر سے باہر پھنکوا دیا گیا ، اُس لڑکی نے چند دنوں بعد کوڑے کے ڈھیر کی اوٹ میں بچے کو جنم دیا ، یہ بچہ گندگی میں پیدا ہوا اور گندگی ہی اس کی پہلی گود اور درسگاہ بنی ، بدبودار ماحول نے اس کے دل میں خوشبوؤں کا تصور ہی نہ بننے دیا وہ بڑا تو ہوا لیکن پھر اُس نے اور اُس کی آنے والی نسلوں نے کبھی خوشدلی و خوشدامنی کو نہ دیکھا اور نہ پسند کیا اور ہمیشہ اپنے ارد گرد کے صاف ستھرے اُجلے لوگوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا نسل در نسل صدیاں بیت جانے کے باوجود نفرت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔
یہ سب کہانی میرے ذہن میں اس وقت ابھری جب ایک دانشور جسے شرفاء کی محفلوں میں کئی بار مار کر نکالا گیا ہے نے پاکستانی قوم کے بارے میں یہ گند اچھالا کہ اس قوم کا ڈی این اے ہی خراب ہے اور بڑے فحر سے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اُس کا اپنا ڈی این اے وسطی ایشیا کے کسی علاقے کا ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ جو تاریخی اعتبار سے دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے کا قیام ابا سین ( دریاؤں کا باپ ) جسے اب سندھ کہاجاتا ہے کے ڈیلٹا پر معرض وجود میں آئی ، اباسین کے معاون دریاؤں نے اس سرزمین کو جہاں خوراک جیسی دولت سے نوازا وہیں اسے ہمیشہ سے ہی بیرونی دنیا کے لیے پُر کشش بنائے رکھا ،یہاں کے مقامی باشندے جو آج بھی ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں آباد ہیں کو 1500 قبل از مسیح میں آریان نے جو مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا سے آئے تھے کا سامنا کرنا پڑا لوہے کی دریافت اور اس سے بنائے جانے والے ہتھیاروں کا مقابلہ یہاں کے مقامی باشندے نہ کرپائے اور یوں اس زرخیز زمین میں آریا قوم آباد ہوئی، زمین کی زرخیزی نے انہیں قبیلوں میں تقسیم کیا یہ ستواں ناک والے نسبتاً گوری رنگت کے لوگ اس علاقے کو آباد کرتے رہے جین مت کا مہاویر ہو یا بدھ مت کا سدھارت ، ہندو مت کا کرشن بھگوان ہو یا بھگوت گیتا کا رام سب اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان سب کی گوری رنگت خوبصورت چہروں ابھرتے ہوئے قد کی بدولت ہی ان راجے مہاراجوں کو دیوتا تسلیم کرلیا گیا ۔
یہ بھی پڑھیے: قاضی فائز عیسیٰ، عمرانی تابوت کا آخری کیل
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے غلام اور کنیزوں کی بڑی کھیپ یہاں آتی رہی فاتحین کے لیے بھی دولت بھرا یہ خطہ ہمیشہ حملے کے لیے اولین ترجیح رہا ، یوں یونانی ہوں یا ترکمانی ، ایرانی ہوں یا تورانی ، افغانی ہوں یا منگول، عرب ہوں یا تیموری مرزا ہوں یا بیگ یہاں آتے رہے اور قبیلوں کے اندر قبیلوں کا ملاپ ہوتا رہا ، یوں آج کے موجودہ پاکستانی قوم کی بنیاد پڑی جن کے قد کاٹھ ، جلد کی رنگت اور خدوحال کسی بھی صورت اُن قدیم مقامی باشندوں سے میل نہیں کھاتے جو دراصل اس سرزمین کے حقیقی وارث تھے ۔ جس کا ایک نقشہ ہمیں موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے ملنے والے مجسموں سے ہوتا ہے جن کے ناک چوڑے اور رنگ سرمئی جیسے کالے تھے ۔
اب آئیں گالیاں نکالنے والے اُس دانشور کی طرف جسے کچھ واقفان حال (استاد کُپی ) کے نام سے لکھتے اور پکارتے ہیں یہ گاہے بگاہے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ پاکستانی قوم بد دیانت ، ڈرپوک اور غیرت و حمیت سے خالی ہے اس جعلی مفکر نما بدبودار کی تحریروں اور تجزیوں سے ماسوائے پاکستان کے لیے مایوسی کے کچھ نہیں ہے موصوف اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لیے اب اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کرالائے ہیں تاکہ خود کے غرور کو کڑوا پانی پی کر مزید تسکین دے سکیں اور کہہ سکیں کہ میں تو یہاں کا تھا ہی نہیں ،تو جناب ہم بھی مانتے ہیں آپ یہاں کے نہیں ہیں بلکہ اس خطہ پاکستان میں رہنے والے 99.9 فیصد لوگ باہر سے آکر ہی آباد ہوئے جن کا ڈی این اے یہاں سے نہیں ملے گا، یہ الگ بات ہے کہ بددیانت سپاہی کے ڈی این اے سے کوڑے کے ڈھیر پر جنم لینے والے آج بھی گندگی پھیلا رہے ہیں ہاں ان کا ڈی این اے وہی رہے گا بدلے گا تو نہیں ۔ اب میرا نہیں خیال کہ اس کا نام لکھنے کی ضرورت ہے پڑھنے والے یقنناً پہنچ گئے ہوں گے ۔
ضروری نوٹ :ادارے کا بلاگر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر