معاشی بحران سے تمام پاکستانی متاثر، لوگ مایوسی کا شکار ہیں، مصطفٰی کمال

Jul 11, 2024 | 12:09:PM
 معاشی بحران سے تمام پاکستانی متاثر، لوگ مایوسی کا شکار ہیں، مصطفٰی کمال
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان  کے رہنما مصطفی کمال نے کہا ہے کہ پاکستان معاشی بحران میں مبتلا ہے اور تمام پاکستانی مایوسی کا شکار ہیں۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ تمام پاکستانی متاثر ہیں، ایسے حالات میں انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے، روس جیسا جوہری طاقت رکھنے والا ملک معاشی بحران کی وجہ سے ٹوٹ گیا ملک میں توانائی کا شدید بحران ہے، 600 ارب روپے نقصان توانائی کے شعبے میں ہو رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2 ہزار 600 ارب کے ہم پر گردشی قرضے ہیں، یہ نمبرز میرے نہیں ہیں، ہمیں اس سال 1700 ارب پاور کمپنیز کو دینے ہیں، ہم نے پوری ملک کی ڈیولپمنٹ کے لیے 1400 ارب رکھے ہیں اور ہم صرف پاور کمپنیز کو 1700 ارب دیں گے تو یہ اتنا بڑا حجم ہے، اب یہ صورتحال ہے ہماری، اس زخم کو صحیح کیے بغیر ہماری پاکستان کی معیشت کے جسم کو صحیح نہیں کیا جاسکتا، پاور سیکٹر کی مس مینجمنٹ اور لاسز معیشت پر زخم ہیں، اس کو روکے بغیر معیشت ٹھیک نہیں ہوگی۔

مصطفی کمال نے کہا کہ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ بجلی موجود ہے، لیکن لوڈ شیڈنگ 18 گھنٹے ہورہی ہے وہ اس لیے کیونکہ حکومت کی جو ڈسکوز ہیں،ان کے پاس جو لاس ہے اس میں چوری، لائن لاسز وغیرہ شامل ہیں تو اس خسارے کو کوور کرنے کا انہوں نے طریقہ کار نکالا ہے وہ یہ ہے کہ بجلی کم دو، پیداوار کم کردو تو لائن لاسز کم ہوجائیں گے اور بجلی کی چوری کم ہوجائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں بجلی کم پیدا ہو رہی ہے اور اس کی کم پیداوار کے پیسے کو بھی حکومت ہی دے رہی ہے، یہ سارا خسارہ 600 ارب کا، لائن لاسز یہ سب، ٹرانسمیشن لاسز سب صارفین سے لیے جارہے ہیں، ان سے لیے جارہے جو بل دے رہا ہے، اب یہ نہیں چلے گا، لوگوں کی برداشت سے باہر ہوگیا ہے سب، یہ نہیں چل رہا، آج ہر اچھا خاصا سفید پوش آدمی بل دینے سے قاصر ہے، جو بل آتا ہے اس میں 71 فیصد کیپیسٹی چارجز کے پیسے ہیں، تو اس کا حل کیا ہے؟ ہم اس پر تشویش کا اظہار کرتی ہے، یہ مسئلہ جانے والا نہیں، جس طرح سے آج اس پر بات ہورہی وہ ٹھیک نہیں، ہم اس نجکاری کے حامی ہیں، ڈسکوز کی نجکاری ہونی چاہیے، سوائے کے الیکٹرک سب ڈسکوز سرکاری ہیں پر کراچی والوں کا کے الیکٹرک کا تجربہ کوئی اچھا نہیں، اس تجربے کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سب سے پہلے یہ ٹھیک کرنا ہے کہ ہمیں کس چیز کی نجکاری کرنی ہے؟ اگر ہم نے اجارہ داری ختم نہیں کی، ایک سے زائد کمپنیز کو لائسنز نہیں دیے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، کراچی میں کے الیکٹرک کے علاوہ دس اور بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیز ہونی چاہیے، اس سے مقابلہ پیدا ہوگا اور صارفین کو فائدہ پہنچے گا، ٹیلی کمیونیکیشن کا بھی یہی حال تھا مگر جب دوسروں کو اجازت ملی تو فائدہ ہوا۔

انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو پری پیڈ میٹرز پر جانا ہوگا، اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے پاس آپشن ہو کہ اگر کوئی ایک بجلی مہنگی دے رہا ہے تو میں دکان سے جاکر دوسری بجلی کمپنی کا کارڈ خریدوں اور میری بجلی آجائے، جو چور نہیں وہ تمام چوریوں کے پیسے دے رہا ہے، ساری کرپشن کے پیسے وہ دے رہا ہے جو بجلی کا بل دے رہا ہے، یہ کونسا انصاف ہے؟