سینئر صحافی سلیم بخاری نے ملک میں سیاسی استحکام کا حل بتا دیا

معروف تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اگر خان صاحب خلوص نیت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو سیاسی راستے کھل سکتے ہیں اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ الیکشن متنازعہ ہیں تو نئےالیکشن کرائے جا سکتے ہیں،یہ بھی ایک سیاسی حل کی صورت ہے۔

Jun 11, 2024 | 00:28:AM
سینئر صحافی سلیم بخاری نے ملک میں سیاسی استحکام کا حل بتا دیا
کیپشن: سینئر صحافی و معروف تجزیہ کار سلیم بخاری
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(فرخ احمد)عمران خان پی پی اور ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے کو تیارہیں پرسینئر صحافی اور معروف تجزیہ کار سلیم بخاری نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ  خان صاحب کا یہ رویہ بہت پرانا ہےانہوں نے 2011 کے جلسے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اس وقت سے اپنے مخالفین کو چور ڈاکو کہہ کر پکارتے ہیں، حالانکہ ان کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ یہ چور اور ڈاکو ان کی اپنی پارٹی میں بھی فرح گوگی، عثمان بزدار  جیسے لوگوں کی شکل میں موجود ہیں۔اور انہوں نے چور ڈاکو کا لفظ پوری قوم کو رٹا دیا تھا لیکن وہ صرف اپنے مخالفین کو ہی چور اور ڈاکو سمجھتے تھے۔اگر دوسرے لوگ چور تھے تو ماشااللہ ان کی اپنی پارٹی بھی ان چور اور ڈاکوؤں سے بھری پڑی تھی۔

سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ میں ذاتی طور پر خان صاحب کو جانتا ہوں وہ کرپٹ آدمی نہیں ہیں۔میں ان کو خوش کرنے کیلئے ایسا نہیں کہہ رہا، بلکہ وہ حقیقت میں بےایمان آدمی نہیں  ہیں اور نہ ہی ان کو کرپٹ کہا جاسکتا ہے۔عمران خان کے پی پی اور ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے کو تیارہونے کو سلیم بخاری نے ایک سیاسی یو ٹرن قرار دیا،انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس کا مشورہ  بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن اس کا ایک سیاسی پس منظر بیان کرتے ہوئےانہوں نے  کہا کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت گئی ہےاور ملٹری قیادت تبدیل ہوئی ہے خان صاحب نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ وہ بات کریں گے تو صر ف ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے،یہ بات انہوں نے اتنی دفعہ کہی کہ آخر کار ایک انٹرویو میں انہوں نے کہہ ہی دیا کہ میں تو تھک گیا ہوں کہہ کہہ کر لیکن کوئی میرے سے بات نہیں کرتا۔ ان کی ہردفعہ اس خواہش کے جواب میں  ان کو ہر  بار یہ جواب ملا کہ ملٹری اس معاملے میں  غیر سیاسی ہے۔ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد اور نئی صورتحال میں جب ان پر نئے کیسز بن رہے ہیں اور جلد ان کی رہائی ممکن نہیں ہےوہ  چیف جسٹس کو خط لکھنے پر آمادہ ہوگئے ہیں لیکن ان کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ چیف جسٹس اب وہ چیف جسٹس نہیں ہیں جو ماضی میں ان کی سہولت کاری کیا کرتے تھے۔ 

ان کاکہناتھا کہ مسلم لیگ اور پی پی پی کی قیادت نے کئی بار بانی پی ٹی آئی کو مل کر چلنے کی آفر کرائی لیکن ہر دفعہ ان کو چور ڈاکو ،چور ڈاکو کہتے رہےاور سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرتے رہے۔ملک میں سیاسی ومعاشی صورتحال اوردرپیش چیلنجزکم کرنےکیلئے وہ سیاسی عدم استحکا م اور معاشی صورتحال کے پیش نظر وہ بات کریں گے، سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ کیا ملک میں سیاسی ومعاشی عدم استحکام ابھی ہو ا ہے کیا۔سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ اگر خان صاحب خلوص نیت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو سیاسی راستے کھل سکتے ہیں اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ الیکشن متنازعہ ہیں تو نئےالیکشن کرائے جا سکتے ہیں۔یہ بھی ایک سیاسی حل کی صورت ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ یہ خط  چیف جسٹس کی بجائے سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو لکھا جانا چاہیے اور تین بڑی پارٹیوں جن کا ووٹ بینک ہے اور وہ ایک حقیقت بھی ہیں ان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے چاہئیں، جن کے ساتھ پی ٹی آئی سیاسی بائیکاٹ کر کے بیٹھی ہوئی ہے۔دیکھیں اب کل خط کے مندرجات سامنے آئیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ مذاکرات میں کتنے سیریس ہیں۔

پنجاب حکومت کے ہتک عزت قانون پر بات کرتے ہوئے سینئر صحافی کا کہناتھا کہ میڈیا پر پابندیوں کا یہ پہلا قانون نہیں ہے اس سے پہلے صدر ایوب کے مارشل لا کے دور میں میڈیا پر پابندی کا قانون آیا تھا جس کےتحت صحافیوں کو گرفتار کیا جاسکتا تھا سزا دی جاسکتی تھی اور مقدمات قائم کیے جاسکتے تھے جس کو تین دہائیوں تک بھگتا گیا تھا۔ پاکستان پینل کورٹ میں بھی اس قسم کا قانون موجود ہے ،سلیم بخاری کا کہنا تھا ان دو قوانین کے ہوتے  ہوئے تیسرا قانون لانے کی کیا ضرورت تھی۔اب اس قانون کے تحت اب کوئی بھی صحافی اس قانون کی زد سے نہیں بچ سکے گا اور وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرتےہوئے سوچے گا کہیں وہ اس قانون کی زد میں تو نہیں آرہا، پھر تو بس وہ صرف حکومت وقت کی مدح سرائی میں ہی لگا رہے گا۔سلیم بخاری  نے اس قانون میں پی پی پی کو شریک جرم ٹھہرایا ہےکیوں کہ اگر پی پی پی کے گورنر اس بل کو واپس بھیج دیتے تو یہ قانون نہ بنتا لیکن عین وقت پر گورنر چھٹی چلے گئے اور قائم مقام گورنر نے ٹھک سے بل پر دستخط کر کے بھیج دیا اور صحافت کے خلاف ایک اور کالا قانون معرض وجود میں آ گیا۔

پاک بھارت کرکٹ میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی نے کہاکہ  قوم کے ساتھ ساتھ وہ بھی ایک دکھ کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ کے کسی ٹورنامنٹ میں ہمارا فائنل کو ئی نہیں ہوتا بس انڈیا سے میچ ہی ہمارا فائنل ہوتا ہے انڈیا سے جیت گئے تو سمجھ لیں کہ ہم نے ٹورنامنٹ جیت لیا۔ لیکن جس ذہنی تکلیف سے کل دوچار کیاگیا اس کی ذمہ داری کسی پر تو ہے۔جتنی تنقید ٹیم پر سلیکٹرز پر پی سی بی پر ہو رہی ہےو ہ ناقابل بیان ہے۔چیئرمین پی سی بی کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ محسن نقوی چیئرمین پی سی بی نے جو بڑی سرجری کا کہا تو وہ ضرور کریں گے اور جو خرابی ہے وہ اس کی جڑ تک پہنچ کر ذمہ داروں کو ضرور کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

دیگر کیٹیگریز: ضرور پڑھئے - انٹرویوز
ٹیگز: