الیکشن کے وقت خفیہ ادارے انتخابی سلسلے کو کنٹرول میں لے لیتے ہیں، مولانا فضل الرحمان
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) سربراہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں،اس لئے ملک میں آئین کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انٹرا پارٹی انتخابات اور رکن سازی کی تقریب کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم پارلیمانی نظام کا راستہ ہی رکھیں اور امن کے راستے پر استقامت کیساتھ آگے بڑھیں گے ،سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہماری پارٹی انتخابات ہر 5 سال بعد ملک بھر میں عوامی سطح پر رکن سازی کرتی ہے، آج پورے ملک میں ہمارے نظماء انتخاب ہیں،اور ہمارا مرکزی ناظم عطاء الحق ہیں،اگلے 2 ماہ تک پورے ملک میں عوامی سطح پر رکن سازی مہم چلے گی ، پھر یونین کونسل سے مرکزی سطح تک عہدوں کا انتخاب عمل میں آئے گا، ہماری تنظیم سازی بغیر کسی رکاوٹ کے ہوتی ہے اور اس سلسلے میں جمہوری انداز میں صرف ہمارا تنظیم سازی کا دعویٰ ہے، ہر فرد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ جے یو آئی کے قافلے میں شامل ہوکر ملکی بقا کیلئے کردار ادا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس ملک میں ایک مثبت جمہوری جہدوجہد پر یقین رکھتے ہیں ، پاکستان کے خلاف ہر سازش کا مقابلہ کریں گے، عالمی قوتیں جس طرح اثر انداز ہوتی ہیں ان قوتوں کی سازشوں کا مقابلہ پہلے کی طرح کریں گے ، پاکستان کی آزادی، خود مختاری کیلئے لازمی ہے کہ ہم دوستی رکھیں مگر غلامی قابل قبول نہیں،انہوں نے دعوٰی کیا ہے کہ جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو خفیہ ادارے حرکت میں آ کر انتخابی سلسلے کو کنٹرول میں لے لیتے ہیں ،ہم 2018ء کے الیکشن کو اسی بنیاد پر مسترد کیا اور 24ء کے انتخابات کو بھی اسی بنیاد پر مسترد کیا،عوامی اسمبلیوں میں عوام کی شمولیت نے 8 فروری کے الیکشن کی حقیقت کو آشکار کردیا ہے ، جے یو آئی کی شورٰی اور عاملہ عید کے بعد بیٹھے گی اور اگلی حکمت عملی دینگے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہی ہمسفروں نے الیکشن نتائج کو تسلیم کیا اور اقتدار میں بیٹھ گئے ، ہم نے اپنا اصول نہیں بدلا، اگر نتائج آئندہ بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تو یہ جنگ جاری رہے گی ، ہم سرنڈر نہیں ہونگے اور ہر قسم کے نتائج بھگتنے کیلئے بھی تیار ہیں،ہم نے فاٹا کی حکمت عملی پربھی اعتراض کیا تھا ، آج 2024ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، آج بتایا جائے کہ دہشت گردی ختم ہوئی یا اور بڑھ گئی ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دکھ سے بات کرتا ہوں کہ ریاستی رٹ ختم ہوچکی ، کوئی شخص اپنے ماحول میں محفوظ نہیں ہے، معلوم نہیں ہوسکا کہ واقعی دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑی جارہی ہے یا معدنی ذخائر پر قبضہ کیا جارہا ہے ،اب لوگ فوج کو آپریشن کی اجازت دے رہے ہیں نہ کچھ کرنے دے رہے ہیں اعتماد کم ہورہا ہے ،ہم ملکی دفاع اور فوج کو طاقت ور دیکھنا چاہتے ہیں مگر ان کا رخ موڑنا چاہتے ہیں ،وہ طاقت کے گھمنڈ میں ہیں، مگر خود ان کے گھر والے ان پر اعتماد نہیں کررہے تو اور کیسے کرے ،ہم ان کو طاقت ور مگر وہ ہمیں کمزور دیکھنا چاہتے ہیں، ہم جانتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے سیاستدانوں اور مقتدرہ کو مشترکہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے،ہماری افغانستان کے حوالے سے محنتوں پر پانی کس کے کہنے پر پانی پھیرا جارہا ہے ،چمن کے لوگوں کے حالات سب کے سامنے ہیں، وہ گھروں کا سامان بیچ چکے ہیں ،مگر ریاست ہے کہ روزگار کا متبادل نظام بنائے بغیر دباؤ کے ذریعے جو ہم کہتے ہیں ماننا پڑے گا ،ایسا نہیں چلے گا، انگور اڈا آخری گاؤں ہے، دیورند لائن نے نہیں دیکھا کہ گھر کہاں اور صحن کہاں ہے۔
کیا پھر ایک شیخ مجیب الرحمٰن کو تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
ملک کو سنبھالنا ہوگا اور سوچنا ہوگا ،اگر وہ جبر کا راستہ لیں گے تو ہم عوام کیساتھ کھڑے ہونگے ،معاملے کو معقولیت کیساتھ حل کرنا لازمی ہے اور اس لئے تعاون کا ماحول لازم ہے ،افسوس اس ماحول سے نفرتوں کی آگ لگا دی گئی ہے آپ کے پاس عقل و خرد نہیں، طاقت کا نشہ ہے ،انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین میں 40 ہزار سے زائد لوگ شہید ہوگئے ہیں، کوئی ایک گھر نہیں جو بچا ہو ،جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل اور امریکہ انسانی حقوق کا قتل کررہے ہیں ،مسلم دنیا سے جنوبی افریقہ بہتر جو کم از کم عالمی عدالت انصاف میں تو گیا ،کہاں گئی ہے ایمنیسٹی انٹرنیشنل، ہیومین رائٹس واچ، یہ گونگے ہوچکے ہیں،یہ انسانی حقوق کی نہیں بلکہ طاقت کو بالادست بنانے والی تنظیمیں ہیں ،ہزاروں بچیاں وہاں بارود کی آگ میں بھسم ہوچکی ہیں، روئیں روئیں سے خون ٹپک رہا ہے،قوم اور امت سے اپیل کہ وہ حکمرانوں کی بجائے عوام کی مدد کیلئے امہ خود آگے بڑھے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان مذاکرات کیلئے تیار ہیں، آغاز کس سے کریں گے ؟بیرسٹر گوہر نے بتا دیا