(24 نیوز) وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ 8 مارچ کو پی ٹی آئی کا ایک ورکر جاں بحق ہوا، کسی بھی شہری کی ہلاکت کا واقعہ معمولی نہیں ہوتا، پی ٹی آئی ورکر کی ہلاکت تشدد سے نہیں، حادثے میں ہوئی، کسی شہری کا جاں بحق ہونا معمولی واقعہ نہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے آئی جی پنجاب عثمان انور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا سیاست سے لینا دینا نہیں، مجھ پر پہلے سازش اور اب قتل کا الزام لگا دیا گیا، کیا قتل کا الزام لگانا اتنا آسان ہے ؟ آپ کتنا جھوٹ بولیں گے ؟ اس سیٹ پر نہ ہوتا تو جواب کسی اور طریقے سے دیتا۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ سیاست کریں لیکن لوگوں کو گمراہ نہ کریں، یہ مکمل طور پر اندھا کیس تھا، ہمیں اپنا کام کرنے دیں، کسی کے کہنے پر پریشر میں نہیں آؤں گا، نگران وزیراعلیٰ بننے کے بعد مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ راجہ شکیل ایکسیڈنٹ کی اطلاع ڈاکٹر یاسمین راشد کو فون پر دیتے ہیں، یاسمین راشد نے راجہ شکیل کو زمان پارک اگلے دن بلوالیا، انہوں نے ساری تفصیلات اپنے لیڈرز کو بتائیں، گاڑی کا ڈرائیور اپنا حلیہ بھی تبدیل کر چکا تھا۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ راجہ شکیل سے ملاقات کے بعد زبیر نیازی کو بھی ساری تفصیلات بتائی گئیں، میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ہمارے اوپر الزامات لگائے گئے، تمام لیڈرز کو پتہ تھا کہ بلال حادثے میں مارا گیا لیکن اس کے باوجود پروپیگنڈہ کیا گیا۔
نگران وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ آپ اسلام کی بات کرتے ہیں اور اس میں سب سے بڑا جرم جھوٹا الزام لگانا ہے، ہمیں اور ہماری فیملیز کو بھی دھمکیاں دی گئی جو سخت زیادتی ہے، سیاست کریں، جھوٹ نہ بولیں، ہمارے بچوں اور فیملیز کو میسیجز کیے جا رہے ہیں جو سخت زیادتی ہے، پوری پارٹی کہتی رہی کہ قتل کروایا گیا جبکہ ان کو سب پتہ تھا۔
محسن نقوی نے مزید کہا کہ 30 اپریل کو الیکشن ہیں، اس میں ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں اپنا کام کرنے دیں اور یہ سمجھیں گے کہ میں پریشر میں آونگا یہ نہیں ہو سکتا، یاسمین راشد کو سب پتہ تھا لیکن انہوں نے عمران خان کیساتھ پریس کانفرنس کی، عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ سیاست ضرور کریں لیکن جھوٹ والا حصہ نکال دیں۔
وزیر اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے بلال کے والد کو ایک کڑوڑ روپے دینے کا لالچ بھی دیا لیکن انہیں سلام ہے وہ ان کی باتوں میں نہیں آئے۔
آئی جی پنجاب عثمان انور
قبل ازیں آئی جی پنجاب عثمان انور کا کہنا تھا کہ 6 بجکر 24 منٹ پر ایکسیڈنٹ ہوا، ڈالے کے سوار 6 بجکر 52 منٹ پر سروسز ہسپتال بلال کو ساتھ لے کر آئے، گاڑی کا مالک راجہ شکیل ہے جو پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے صدر ہیں، حکومت اور پولیس حکام کو اس واقعے میں ملوث کرنے کی سازش کی گئی، جعلی آڈیو بنائی گئی جس میں پولیس اور فوجی افسر کی آواز بنائی گئی۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ 31 کیمروں کی مدد سے گاڑی کو وارث شاہ روڈ سے برآمد کیا گیا، گاڑی میں مقتول کا خون موجود ہے، ڈرائیور کا نام جہانزیب ہے، گاڑی کے گرفتار ہونے والوں افراد کو عدالت پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہمیں گالیاں اور بددعائیں دی جا رہی تھیں تب ہم کچے میں شہدا کے بچوں سے دعائیں لے رہے تھے، وردی کے اوپر ڈنڈے برسائے گئے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، پوسٹ مارٹم رپورٹ یہ نہیں کہہ سکتی کہ تشدد ہے یا کسی چیز سے شدید چوٹیں آئیں، ریاست اور بارڈر پر کھڑے لوگوں کو سوشل میڈیا پر گالیاں دینے والے کیخلاف سخت جواب دیا جائے گا، ہمیں گالیاں دینے والوں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔
ڈرائیور جہانزیب نواز
جس گاڑی سے ظل شاہ کا حادثہ ہوا اس گاڑی کے ڈرائیور کا اعترافی بیان سامنے آگیا۔ڈرائیور جہانزیب نواز کا کہنا ہے کہ میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں بطور ڈرائیور کام کرتا ہوں، 8 مارچ کو ہم دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے جاتے ہیں تو ہماری گاڑی کی ایک شخص کیساتھ ٹکر ہوئی، گاڑی کی ٹکر سے ظل شاہ گر جاتا ہے پھر اس کو گاڑی میں ڈالتے ہیں۔
جہانزیب نواز نے کہا کہ سب سے پہلے ہم اس کو سی ایم ایچ لیکر گئے کیونکہ وہ قریب تھا، سی ایم ایچ میں رش زیادہ تھا ہم وہاں سے نکل کر سروسز ہسپتال پہنچے، ایدھی کی سڑیچر پر ظل شاہ کو ہسپتال کے اندر لے کر گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کی موت ہو چکی ہے، اس وجہ سے ہم وہاں سے گاڑی نکال کر گھر واپس آگئے۔
ڈرائیور جہانزیب نواز نے مزید بتایا کہ اگلی صبح جب اٹھا تو سوشل میڈیا پر میں نے اپنی تصاویر دیکھیں تو پریشان ہوگیا، میں نے اپنے باس راجا شکیل زمان جو پی ٹی آئی کے نائب صد ہیں ان کو واقعہ کی مکمل تفصیل بتائی، انہوں نے میری ڈاکٹر یاسمین راشد سے ملاقات کرائی اور تفصیل بتائی، پھر مجھے عمران خان کے پاس لیکر گئے اور خاں صاحب کو واقعے کی تفصیل بتائی۔
جہانزیب نواز نے کہا کہ خان صاحب نے شاباش دی اور ہم وہاں سے واپس آگئے، راجا صاحب نے مجھے کہا کہ آپ اپنا حلیا تبدیل کرلیں اور فکر نہ کریں، مجھے راجا صاحب نے کہا کہ آپ جیسے مرضی گھومیں ہم دیکھ لیں گے۔
کارکن اشتیاق
قیدیوں کی وین میں موجود پی ٹی آئی کے کارکن اشتیاق کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں زمان پارک سے گرفتار کیا اور قیدی وین سے لیکر فورٹرس اسٹیڈیم کی طرف لیکر جا رہے تھے، پولیس نے ہمارے اور بھی ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا جس میں مدثر شاہ اور ظل شاہ بھی شامل تھے۔
اشتیاق کا کہنا تھا کہ ہمارے ایک ساتھی کو واش روم جانا تھا جس کے لیے گاڑی رکی اور ہم نے دروازہ کھولا، ہم سب لوگ گاڑی سے نکل گئے تو ہمارے ساتھ مرحوم ظل شاہ بھی چل پڑا۔
پی ٹی آئی کارکن محسن شاہ
پی ٹی آئی کارکن محسن شاہ نے کہا کہ 8 مارچ کو زمان پارک سے ہمیں پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا، پولیس ہمیں قیدیوں والی وین میں بٹھا کر لے کر جا رہی تھی، ایک لڑکے کو واش روم جانا تھا تو ہم نے دروازہ کھولا تو ہم سارے وہاں سے نکل گئے، میں نکل کر بس اسٹاپ کی طرف گیا اور میرے ساتھ ظل شاہ بھی تھا۔