الیکشن شیڈول صرف دکھاوا، صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشن ایک ساتھ ہوں گے ، سینئر صحافی کا دعویٰ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز )تحقیقاتی صحافی فخر درانی نے انکشاف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول صرف دکھاوا ہے 30 اپریل کو الیکشن نہیں ہوں گے ۔
تفصیلات کے مطابق فخر درانی نے اپنے وی لاگ میں انکشاف کیا کہ اسٹیلبشمنٹ نہیں چاہتی کہ صوبائی حکومتوں کے الیکشن ہوں ، سینئر صحافی نے اس کے واضح دلائل بھی دیئے ہیں ، فخر درانی کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جنرل الیکشن 30 اپریل کو ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے رہے ، الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن شیڈول صرف ایک دیکھاوا ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ، فخر درانی کے مطابق اس رائے کے پیچھے 10وجوہات ہیں ان میں سے پہلے نمبر پر یہ کہ اگر اب دونوں صوبوں میں جنرل الیکشن ہو جاتے ہیں اور یہاں کوئی بھی پارٹی حکومت بنا لیتی ہے تو جب اگست میں قومی اسمبلی کی مدت پوری ہو گی اور نگران سیٹ تشکیل دیا جائے گا تو یہ دونوں صوبائی حکومتیں نگران سیٹ اپ میں کہاں ایڈجسٹ ہوں گی ؟ کیونکہ آئین کی شرط ہے کہ کے جنرل الیکشن نگران حکومت کی موجود گی میں ہوں گے، ایسی صورت میں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کسی کی حکومت بن جائے گی تو کیا قومی اسمبلی کے الیکشن میں دوسرا فریق یہ تسلیم کر لے گا کہ اس کے مخالف جماعت کی حکومت کے ہوتے ہوئے الیکشن ہو جائیں ، ؟ تو ایسا نہیں ہوگا
دوسری وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ دو روز قبل الیکشن کمیشن حکام نے وزارت خزانہ کو بریفنگ دی ہے اور کہا ہے کہ انہیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سیکیورٹی کیلئے ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کی ضرورت ہے یعنی پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے علاوہ ساڑھے تین لاکھ فوجی ، فرض کریں وہ فوج بھیج بھی دیں تو ان سب کا بجٹ کیسے پورا کیا جائے گا، پھر 10لاکھ کے قریب ہماری ٹوٹل فوج ہے اس میں سے ساڑھے تین لاکھ فوج کیسے ایک ہی وقت میں الیکشن ڈیوٹی کیلئے لگا دی جائے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں صوبوں میں الیکشن کرانے کیلئے 20 ارب روپے کی ضرورت ہے ، ا ب مشکل یہ ہے کہ کیا 20 ارب روپے لگا کر کرائے جانے والے الیکشن کے نتائج تمام پارٹیاں مان لیں گی ؟ جس کا جواب منفی میں ہے اس لیے یہ پیسوں والی وجہ سے بھی الیکشن نہیں ہو ں گے ۔
2018 کے انتخابات میں پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 105 ملین تھی یعنی 10 کروڑ 50 لاکھ ووٹرز تھے وہ اب 5 سالوں مٰں بڑھ کر 122 ملین کے قریب پہنچ گئے ہیں یعنی 12 کروڑ 20 لاکھ کے قریب اب ووٹرز کی تعداد ہے ،
10کروڑ ووٹرز کیلئے تب پچاسی ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز بنائے گئے ، اب جب دونوں صوبوں کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو کیا ان دونوں صوبوں کے 96 ملین ووٹرز کیلئے ان کی تعداد کی مناسبت سے پولنگ سٹیشنز بنائے جانے کی تیاری کیا ہے کیا الیکشن کمیشن نے ساری صورتحال کیلئے پلاننگ کی گئی ہے ، جی نہیں ان سب کی پلاننگ نہیں کی گئی ۔
سینئر صحافی نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی ایک خبر دی کہ کیوں اسٹیبلشمنٹ صوبائی حکومتوںکے الیکشن نہیں کرانا چاہتی، فخر درانی کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے ساڑھے تین لاکھ فوج الیکشن سیکیورٹی کیلئے مانگی گئی ہے ، اس طرح فوج پہلے صوبائی الیکشن کی ڈیوٹی دے گی اور پھر نیشنل اسمبلی اور دیگر دو صوبائی الیکشن کیلئے پورے ملک میں لگائی جائے گی تو ایسا نہٰں ہونے والا فوج کبھی بھی نہٰں چاہے گی کہ اتنی بڑی تعداد میں فوج ملک میں دو بار ڈپلاوئے کی جائے اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو پھر ہر 5 سال کے بعد یہ سلسلہ ہی چل پڑے گا کہ سال میں دو الیکشن ہوں گے ، اس لیے اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ یہ سلسلہ چلے ۔
عمران خان نے عدالت کی سرپرستی میں الیکشن کرانے کا کہا ہے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے جو آر اوز کی لسٹ جاری کی گئی ہے وہ تمام کے تمام بیورو کریسی سے لیے گئے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان یہ بات منظو ر کریں گے کہ بیورو کریسی کے تحت الیکشن کرائے جائیں ۔
سینئر صحافی کے بقول ہمیشہ جنرل الیکشن سے قبل الیکشن کمیشن عملے کی ٹریننگ کرتا ہے لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہو سکا اور صرف 18 دن الیکشن میں رہ گئے ہیں ۔