فوجی تنصیبات ،قومی املاک پر حملہ کرنیوالوں کو کیا سزا ہوگی؟ تحریک انصاف پرپابندی، عمران خان کا مستقبل کیا ہوگا؟
اظہر تھراج || پی ٹی آئی کارکنوں نے یہ سب اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی باقاعدہ ہدایات اور منصوبہ بندی سے کیا ۔اس کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سامنے آئی ہے
Stay tuned with 24 News HD Android App
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے بڑے شہروں میں امن اومان کی صورتحال خراب ہے،امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے اسلام آباد ،پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سول انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج طلب کی گئی ہے،پاک فوج کے دستوں نے 2صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔فوجی تنصیبات ،قومی املاک پر حملہ کرنیوالوں کو کیا سزا ہوگی؟ کیا پاکستان تحریک انصاف پرپابندی لگ سکتی ہے؟ عمران خان کا مستقبل کیا ہوگا؟
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی سیاسی لیڈر کی گرفتاری پر اس کے حامیوں نے فوجی چھاؤنیوں کا رکھ کیا،سول علاقوں میں دھرنے دینے،ہڑتالیں کرنے کے بجائے چھاؤنیوں میں توڑ پھوڑ کی ،سرکاری املاک کو نذر آتش کیا،سکول جلائے،ایمبولینسوں کو آگ لگائی ،عمران خان کے چاہنے والوں نے وہ کچھ کیا جو کسی دشمن نے بھی نہیں کیا ۔ یہ نہیں کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے یہ سب اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی باقاعدہ ہدایات اور منصوبہ بندی سے کیا ۔اس کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سامنے آئی ہے۔
پروگرام’سلیم بخاری شو ‘کے سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ جو چھاؤنیوں میں ہوا اب دوبارہ کرنا ممکن نہیں،سیف سٹی کے کیمروں کی مدد سے دنگا فساد کرنیوالے سب پکڑے جائیں گے،جس قسم کی سیاست اب ہورہی ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی ،پاکستان کی تاریخ میں نیشنل پارٹی پر پابندی لگی تھی ،اس وقت یہ جماعت ملکی سلامتی کیلئے خطرہ تھی ،اگر اس جماعت سے پی ٹی آئی کی موجودہ سرگرمیوں کا موازنہ کیا جائے تو اس پر پابندی لگ سکتی ہے مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگنی چاہئے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کنٹونمنٹ یا فوجی چھاؤنی کی ایک آئینی حیثیت ہے، پاکستان میں فوجی چھاؤنی وفاقی علاقے ہیں اور یہ کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے تحت قائم ہیں۔اس ایکٹ کے تحت کسی بھی علاقے کو مسلح افواج کی تربیت یا دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسے اس ایکٹ کے تحت جاری حکمنامے کے ذریعے ’فوجی چھاؤنی‘ ڈیکلیئر کیا جا سکتا ہے۔پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں کنٹونمنٹ یا فوجی چھاؤنی سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں فوجی اہلکار اور ان کے اہلخانہ رہائش پذیر ہوں، اور یہاں فوجی تربیت اور سکیورٹی سے متعلق دیگر امور سرانجام دیے جاتے ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ فوجی املاک کو نقصان پہنچائے جانے پر قانونی کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟
ضرور پڑھیں :پی ٹی آئی مظاہرین کے حملے، جلاؤ گھیراؤ ، توڑ پھوڑ، قدیم عمارت نذر آتش
فوجی چھاؤنی یا کنٹونمنٹ ایریا یا ملک کے کسی بھی حصے میں خلاف قانون کارروائی کرنے کی صورت میں اگر ملزم فوجی ہے تو ان کے خلاف کارروائی پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کی جاتی ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جی ایچ کیو کی ایجوٹنٹ جنرل برانچ کے ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ فوجی شخص کے خلاف کارروائی یا تحقیقات کا اختیار اگر فوج خود پولیس کو دینا چاہے تو ایسا ممکن ہے، تاہم یہ کارروائی عام طور پر فوج میں کورٹ مارشل کے ذریعے کی جاتی ہے۔تاہم اگر کنٹونمنٹ ایریا میں ایک سویلین شہری کسی جرم کا مرتکب پایا گیا ہو تو اس کے خلاف ایف آئی آر چھاؤنی کے پولیس سٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کے تحت درج ہوتی ہے اور اسے حراست میں بھی پولیس ہی لیتی ہے۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ آپریشنل فوجی تنصیبات‘ کو نقصان پہنچانے کی صورت میں انسداد دہشت گردی کے قوانین سمیت فوج خود فوجی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں کارروائی کا اختیار استعمال کر سکتی ہے،سابق فوجی افسر کے مطابق جاسوسی، فوج میں بغاوت پر اکسانا اور کسی فوجی اہلکار پر حملہ آور ہونا اور اس جیسے بعض دیگر سنگین نوعیت کے جرائم ایسے ہیں جن کے خلاف کارروائی فوجی قوانین کے تحت کی جاتی ہے۔لیکن ’سول جرائم اس زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ مثلاً کنٹونمنٹ ایریا میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملہ، یا وہاں چوری کرنا یا آگ لگانا ایک سول جرم ہے کیونکہ یہ سرکاری عمارت اور رہائش گاہ تو ہے لیکن فوجی افسر کا دفتر نہیں۔
اگر یہی جرم ان کے دفتر یا کسی اور فوجی تنصیب پر کیا گیا ہو تو ایسے ملزم کے خلاف مقدمہ اور کارروائی پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت ہو گی اور اس شخص کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا جائے گا۔جی ایچ کیو بھی آپریشنل فوجی تنصیبات میں شامل ہے، اس لیے اس عمارت پر ہونے والا کسی بھی قسم کا حملہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تناظر میں دیکھا جائے گا اور حملے میں ملوث سویلینز کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت کارروائی کا ہی امکان ہے۔
پاکستان ایئرفورس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ روز ہونے والے احتجاج کے دوران ’پاکستانی فضائیہ کی حدود میں مظاہرہ کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار افراد کےخلاف فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔‘تاہم ان کا کہنا ہے کہ فوجی چھاؤنیوں میں کیے گئے جرم کی نوعیت پر منحصر ہے کہ فوج اپنے قوانین کے تحت کارروائی کرتی ہے یا پولیس سول قوانین کے تحت۔فوج کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ اپنی تنصیبات میں کیے گئے جرائم کی تحقیقات اور ٹرائل خود کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟ ماہرین کے مطابق اگر پی ٹی آئی کیخلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اسے کالعدم قرار دینے کیلئے کافی مواد اکٹھا ہوچکا ہے،اگر ایسا ہوتا ہے تو پی ٹی آئی میں موجود کافی سارے لوگ پہلے ہی پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اعلان کرکے دوسری جماعتوں میں جاسکتے ہیں ۔گزشتہ روز گرفتار ہونیوالے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ملک بھر میں ہونیوالے واقعات سے لاتعلقی کا اعلان کرچکے ہیں لیکن لاہور میں ہونیوالے دنگا فساد کے دوران فون کالز سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ پوری منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف بھی بہت سارا مواد موجود ہے،ان کو کسی بھی کیس میں لمبی سزا ہوسکتی ہے،توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد ہوچکی ہے،فارن فنڈنگ کیس میں سزا کا کیس بھی چل رہا ہے،اسی طرح کرپشن کیسز بھی موجود ہیں،فوجی افسروں کے نام لے لے کرجو دھمکیاں دی گئیں اور پھر اس پر جو کارکنوں کا ردعمل آیا تو اس پر بغاوت کے مقدمات بھی بنائے جاسکتے ہیں ۔