(24 نیوز) سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے توہین عدالت کی ہے،سپریم کورٹ نے کہا کہ عمران خان کو جس طریقے سے گرفتار کیا گیا اس کا دفاع ممکن نہیں،عدالت نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ سماعت کررہا ہے۔سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، وہ بائیو میٹرک کرارہے تھے جب رینجرز کمرے کا دروزاہ توڑ کر داخل ہوئی، انہوں نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کو گرفتار کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: نقص امن کا خطرہ: اسد عمر، شاہ محمود اور فواد چوہدری اڈیالہ جیل منتقل
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیف الرحمان کیس میں احاطہ عدالت کے تقدس بارے حکم جاری کر چکے ہیں،80سے 100 رینجرز اہلکار جب ہائیکورٹ داخل ہوتے ہیں تو خوف کی فضا قائم ہوتی ہے، سب کو قانون پر عملددرآمد کرنا ہوگا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ انصاف کیلئے شہری عدالت داخل ہوجائے تو اسے گرفتار نہیں کیا جاسکتا، کیا نیب نے گرفتاری سے قبل رجسٹرار ہائیکورٹ سے اجازت لی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ نیب نے صرف وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور وزارت داخلہ کو خط لکھا، وزارت داخلہ نے نیب کے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرایا۔
نیب پراسیکیوٹر کے استفسار پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کے مطابق گرفتاری وزارت داخلہ نے کی نیب نے نہیں۔ جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ میں کیس کی تیاری نہیں کر سکا ڈپٹی پراسیکیوٹر عدالت کو مزید بتاسکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل صاحب ایسے بیان سے آپ بات کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ جبکہ اٹارنی جنرل نے بیان دیا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے بعد دلائل دوں گا۔
یہ بھی پڑھیں: معروف اینکر عمران ریاض خان سیالکوٹ ائیرپورٹ سے گرفتار
واضح رہےکہ سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کو گزشتہ روز چیلنج کیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہےکہ عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ہائی کورٹ کا عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دینے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے اور عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش کرنےکا حکم دیا جائے۔
سماعت کے احوال:
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری سے عدالت کا تقدس کہاں گیا، ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، 90 افراد عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا عزت رہی؟ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے، کوئی بھی شخص خود کو آئندہ عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، کسی کو ہائیکورٹ، سپریم کورٹ یا احتساب عدالت سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، عمران خان کی گرفتاری سے عدالتی وقار مجروح کیا گیا, معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے, نیب نے ایک ملزم سپریم کورٹ کی پارکنگ سے گرفتار کیا تھا, عدالت نے گرفتاری واپس کروائی اور نیب کیخلاف کاروائی ہوئی, نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی, نیب کی اس یقین دہانی پر نیب افسران توہین عدالت سے بچے تھے, عمران خان کو کتنے لوگوں نے گرفتار کیا تھا. جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ 80 سے 100 لوگوں نے عمران خان کو گرفتار کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سو رینجرز عدالتی احاطے میں آئے تو عدلیہ کا احترام کہاں گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پچھلے دو تین دن ملکی تاریخ کے سیاہ ترین دن ہیں: بلاول بھٹو زرداری
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ گرفتاری کے بعد سے جو ہوا اسے روکنا چاہیے تھا، اس کا مطلب یہ نہیں غیر قانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے، ایسا فیصلہ دینا چاہتے ہیں جس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہرملزم کا حق ہے،
دورانِ سماعت جسٹس عطرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کے تقدس کا معاملہ بھی سپریم کورٹ دیکھے گی، انصاف تک رسائی کے حق کو ہم نے دیکھنا ہے، ہر شہری کو انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے، ہم یہاں صرف اصول و قواعد اور انصاف تک رسائی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، سیاسی حالات کی وجہ سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے بہت افسوسناک ہے, نیب وارنٹ کا مسئلہ نہیں مسئلہ وارنٹ پر تعمیل کے طریقہ کار کا ہے, آپ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں۔ جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔ جس پر جسٹس عطر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں سرنڈر کرنے والے کو گرفتار کیا جائے تو کوئی عدلیہ پر اعتماد نہیں کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: جلاؤ، گھیراؤ، ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ میں ملوث پی ٹی آئی کارکنان اور رہنماؤں کی فہرست جاری
دوران سماعت وکیل تحریک انصاف سلمان صفدر نے استفسار کیا کہ عمران خان کو گھر یا عدالت کے باہر سے گرفتار کیا جاتا تو آج یہاں نہ ہوتے، عدالت میں عمران خان کے ساتھ وہی لوگ آتے ہیں جنہیں اجازت ہو ، عمران خان کے ساتھ کوئی کارکن یا جھتہ عدالت میں نہیں تھا۔ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ جس طریقے سے ہائیکورٹ سے گرفتاری کی گئی اب کوئی کہیں بھی محفوظ نہیں۔عدالت نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ساڑھے 4 بجے تک ملتوی کردی ۔
جسٹس محمد علی مظہر کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا نیب نوٹس کا جواب دیا گیاتھا؟ جس پر وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ نیب نوٹس کا جواب دیا گیا تھا، قانون کے مطابق نیب انکوائری کی سطح پر گرفتاری نہیں ہو سکتی، گرفتاری کے بعد معلوم ہوا یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوا تھا، سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایاکہ وارنٹ ابھی تک عملدرآمد کیلئے موصول نہیں ہوئے تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید پوچھا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے تھے؟ جس پر وکیل شیعب شاہین نے جواب دیا کہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو بھجوایا تھا، نیب کا نوٹس غیر قانونی تھا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ نیب وارنٹ تو عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کئے تھے، عمران خان نیب میں شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئے؟وکیل عمران خان نے استفسار کیا کہ نوٹس کا جواب دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: تاجروں نے پی ٹی آئی کی ہڑتال کی مخالفت کر دی
جسٹس عطر من اللہ نے مزید ریمارکس دیئے کہ سیاسی قیادت سے عدالتی پیشی پر بھی اچھے ردعمل کی توقع کرتے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر قانون پر عملدرآمد کی بات کر رہے ہیں، اصل معاملہ انصاف کی حد تک رسائی کا ہے، کیا عدالتی کمرے میں عمل درآمد وزرات داخلہ نے کیا،
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید سوالات کیے اور ریمارکس دیئے کہ کیا نیب نوٹس میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا؟ قانون پر عمل کی بات سب کرتے ہیں لیکن خود عمل کوئی نہیں کرتا، سب کی خواہش ہے کہ دوسرا قانون پر عمل کرے، واضح ہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا،نیب نے ماضی میں جو کچھ کیا سب کے سامنے ہے، نیب سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے، سپریم کورٹ سمیت کئی عدالتیں نیب کے بارے میں جو کہہ چکی ہیں دہرانا نہیں چاہتا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس تاحال معطل
دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے دلائل دیئےکہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے کئی سالوں سے سبق نہیں سیکھا، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔ جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے عمران خان کا کنڈکٹ بھی دیکھیں ماضی میں مزاحمت کرتے رہے، نیب کو جانوں کے ضیاء کا خطرہ تھا۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق تو نیب کے وارنٹ کی تعمیل کا طریقہ کار وفاقی حکومت نے طے کیا، کیا گرفتاری کے وقت نیب کا کوئی افسر موجود تھا؟ پراسیکیوٹر نیب نے استفسار کیا کہ پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے جواب دیا کہ وارنٹ پر کوئی نجی شخص بھی تعمیل کروا سکتا ہے، نیب خود بھی اپنے وارنٹس پر عمل کرواتا رہتا ہے۔
چیف جسٹس نےکہا کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کسی قانون کے تحت رجسٹرار سے اجازت لینے کی پاپندی نہیں تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ کیا شیشے اور دروازے توڑے گئے؟ ضابطہ فوجداری کی دفعات 47 سے 50 تک پڑھیں، بائیو میٹرک برانچ کی اجازت کے بغیر بھی شیشے نہیں توڑے جاسکتے۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ عمران خان کو کہیں اور گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا، عمران خان ہر پیشی پر ہزاروں افراد کو کال دیتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی املاک اور تنصیبات پر منظم حملے کروائے گئے، اب شدید ردعمل دیں گے، آئی ایس پی آر
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا نیب نے عدالت کے اندر سے گرفتاری کا کہا تھا؟ عمران خان کو کتنے نوٹس جاری کیئے تھے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر نیب کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں تھے، کیا وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟ چیف جسٹس نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے 9 کو گرفتاری ہوئی، آٹھ دن تک نیب نے گرفتاری کی خود کوشش کیوں نہیں کی؟ کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتی تھی؟ وزارت داخلہ کو آٹھ مئی کو خط کیوں لکھا گیا ؟
جسٹس اطہر من اللہ نے اختتامیہ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں کہا؟ عمران خان تو لاہور میں رہائش پذیر تھے، عمران خان کی گرفتاری کو وہیں سے ریورس کرنا ہوگا جہاں سے ہوئی تھی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے عمران خان کو ساڑھے 4 بجے تک عدالت پیش کرنے کا حکم جاری کردیا۔