(24 نیوز)ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس،کل آرمی چیف کا خطاب ،اور آج نگران حکومت کی سانحہ نو مئی کے حوالے سے تیار کردہ رپورٹ ۔ یہ تمام واقعات ایک جانب ہی اشارہ کر رہے ہیں کہ ڈیل ،ڈھیل اور ریلیف کے تمام دروازے بند ہیں ۔ لب لباب یہ ہے کہ جنہوں نے جرم کا ارتکاب کیا ان کو سزا بھی بھگتنا ہوگی،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے تو واضع کر دیا لیکن آج وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی سانحہ نو مئی کی رپورٹ خاصی اہم ہے۔اس رپورٹ میں واضع طور پر بانی تحریک انصاف کو سانحہ نو مئی کا ماسٹر مائنڈ اور ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمیٹی کو دکھائے گئے شواہد کے مطابق، حملوں کی منصوبہ بندی میں پارٹی کے کئی رہنما شامل تھے، اس سے مزید پتہ چلتا ہے کہ بانی تحریک انصاف نے منصوبہ بندی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ’’اب تک کی گئی تحقیقات کے مطابق 34 افراد ایسے تھے جو سڑکوں پر پرتشدد کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈ تھے، پرتشدد واقعات اور بربادی پھیلانے کی منصوبہ بندی میں فعال کردار ادا کیا۔اس کے علاوہ، 52؍ افراد نے مفصل منصوبہ بندی میں کردار ادا کیا اور 185؍ نے اس پلاننگ پر عمل کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’حکمت عملی کے تحت، بانی تحریک کی گرفتاری سے کئی دن قبل پارٹی کے حامیوں اور مسلح افراد کو پی ٹی آئی کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا سے لاہور پہنچا دیا گیا تھا اور انہیں شہر کے مختلف مقامات پر مامور کر دیا گیا تھا۔
ان کے اخراجات پارٹی رہنما اور ہمدرد برداشت کرتے تھے۔ ان لوگوں کو پہلے مرحلے میں عمران خان کی گرفتاری کیخلاف مزاحمت اور گرفتاری کی صورت میں آخری حربے کے طور پر تشدد اور بربادی پھیلانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ان لوگوں نے کئی مواقع پر بانی تحریک انصاف کی گرفتاری کے موقع پر کامیابی کے ساتھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ مزاحمت کی۔ رپورٹ کے مطابق، ’’9؍ مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد یہ افراد پہلے سے طے شدہ مختلف مقامات پر کھڑے ہوگئے تاکہ پارٹی کے دیگر کارکنوں کو وہاں سے ریلی کی صورت میں لے جاسکیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ پرتشدد کارروائیوں کیلئے ان لوگوں کے پاس لاٹھیاں وغیرہ تھیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اشارہ ملتے ہی ان لوگوں نے ہجوم کے جذبات کو مزید بھڑکا دیا، ہجوم کو جی ایچ کیو اور لاہور میں جناح ہاؤس کی طرف لے گئے۔رپورٹ کے مطابق، ’’9؍ مئی کے پرتشدد واقعات کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ افراد فوجی تنصیبات سمیت مختلف مقامات پر حملوں کیلئے محتاط حکمت عملی پر عمل کر رہے تھے۔ فون کالز کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فون کالز پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے جناح ہاؤس پر حملوں کیلئے فسادیوں کو کی تھیں۔ایک دن قبل ہی ان رہنماؤں نے فسادیوں کو متعدد فون کالز کی تھیں۔ بعد میں گرفتار ہونے والے کئی مجرموں نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ انہیں تشدد اور تباہی پھیلانے اور کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جیسے مخصوص اہداف پر حملہ کرنے کی ہدایات پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملی تھیں۔9؍ مئی 2023 کے واقعات الگ تھلگ تھے نہ اچانک پیش آئے۔
یہ واقعات عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں پرتشدد اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے کی منظم حکمت عملی کا حصہ تھے۔ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے عمران خان کی گرفتاری کا امکان بڑھتا گیا۔پارٹی قیادت نے ان کی گرفتاری کی صورت میں جواباً فوجی تنصیبات پر حملوں، تشدد اور بربادی پھیلانے کیلئے حکمت عملی مرتب کی۔جب مسلح افواج نے سیاست میں شامل ہونے انکار کیا تو عمران خان اور ان کی پارٹی نے ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جس سے فوج پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ مقامی اور بیرونی پلیٹ فارمز کے ذریعے میڈیا کے ذریعے دباؤ کا یہ سلسلہ جاری رکھا گیا۔عمران خان نے کسی بھی موقع پر 9؍ مئی کے واقعے کی مذمت یا تردید نہیں کی، بلکہ عوام اور مسلح افواج کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کیلئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔مقصد یہ تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک کا غصہ فوج پر نکالنے کیلئے پارٹی کارکنوں کو موقع دینا۔۔ یہ حکمت عملی ایک سادہ مفروضے پر مبنی تھی کہ غیر مسلح مظاہرین اور فوج کے درمیان تصادم سے فوج مخالف جذبات پیدا ہوں گے۔۔رپورٹ کے اختتام میں یہ واضع کیا گیا ہے کہ ’فراہم کردہ معلومات، دستاویزات اور مواد کا جائزہ لینے کے بعد کمیٹی کی رائے ہے کہ 9؍ مئی 2023ء کے واقعات کی ذمہ دار صرف پی ٹی آئی کی قیادت ہے۔سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف سے معافی منگوانے پر بضد کیوں ہے؟ثبوتوں کے باوجود سزائیں کیوں نہ ہوسکیں؟سوالات اٹھنے لگے۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں