(24 نیوز)عوام سیٹ بیلٹ باندھ لیں کیونکہ آئی ایم ایف کاتکنیکی مشن پاکستان پہنچ چکا ہے۔ اور نئے پیکج کے حصول کے لیے آئی ایم ایف جو شرائط پیش کر رہا ہے اگر وہ لاگو ہو گئیں تو عام عوام کے ساتھ پنشنرز کی زندگی دو بھر ہونے کے امکانات بڑھ جائینگے کیونکہ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پنشن لینے والے افراد پر ٹیکس کے نفاذ ان بہت سی تجاویز میں شامل ہے جو ادارہ چاہتا ہے کہ آنے والے بجٹ میں شامل کی جائے اس کے علاوہ ادارے کا مطالبہ ہے کہ پاکستان مجموعی قومی پیداوار کے نصف فیصد (0.5%) مزید محصولات جمع کرے جس کا مجموعی حجم 600 ارب روپے بنتا ہے اور یہ ٹیکس تنخواہ دار اور کاروباری طبقے سے وصول کیا جائے گا۔آ ئی ایم ایف کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے اگر حکومت ریٹائرڈ افراد کی پنشن پر ٹیکس عائد کرتی ہے اور دیگر مراعات کا خاتمہ کرتی ہے تو اس سے سالانہ 22 سے 25 ارب روپے اضافی حاصل ہوں گے۔
دوسری جانب حکومت پہلے ہی ٹیکس نیٹ بڑھانے کےلیے کوشاں ہے۔جس کےلیے پہلے انہوں نے سم بند کرنے کی آپشن پر غور کیا لیکن ٹیلی کام انڈسٹری کے شکوک و شبہات کے بعد اب پلان بی پر کام کیا جا رہا ہے،اطلاعات ہیں کہ حکومت نے ایف بی آر کو نان فائلرز کے خلاف پلان بی پر عملدرآمد کے لیے گرین سگنل دے دیا، جس کے تحت نان فائلرز پر اضافی ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ساتھ سمز بلاک کرنے کے آرڈر پر عمل درآمد نہ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ضرورپڑھیں:اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف سے معافی منگوانے پر بضد کیوں؟
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق کے مطابق ایف بی آر ذرائع کے مطابق نان فائلرز کے خلاف 15 مئی کے بعد ایکشن لیا جائے گا، جس کے تحت اگر نان فائلرز کی سم بند نہ ہوئی تو اضافی ودہولڈنگ ٹیکس لانے اور نان فائلرز کی سم پر 2.5 فیصد اضافی ٹیکس لگانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ نان فائلرز کے ہر مرتبہ لوڈ کرانے پر اضافی ٹیکس، موبائل اور ڈیٹا لوڈ پر بھی اضافی ٹیکس لانے پر غور کیا جارہا ہے۔ نان فائلرز کی سمز بند کروانے کا ڈیٹا پی ٹی اے کے سپرد کردیا گیا ہے اور 15 مئی تک نان فائلرز کی سمزبند نہ کی گئیں تو ایف بی آر کمپنیوں کے خلاف کارروائی پرغور کرے گا۔
عوام کی مشکلات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ اطلاعات ہیں کہ حکومت اپنی آمدن بڑھانے کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹریکٹرز اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس استثنیٰ ختم کرنےپر بھی غور کر رہی ہے۔ کیونکہ یہ سبسڈی ختم کرنے سے حکومت کو 30 ارب روپے کا ٹیکس ریونیو حاصل ہوگا،لیکن ٹریکٹر کی قیمت او ر زرعی لاگت میں اضا فہ متوقع ہے۔ اس وقت کسانوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹریکٹرز اور کیڑے مار ادویات کو سیلز ٹیکس سے چھوٹ دی گئی تھی۔ ٹیکس چھوٹ ختم کرنے سے ٹریکٹرز کے مینوفیکچرز کو ان پٹ پر ٹیکس کی لاگت برداشت کرنا ہوگی جس سے ٹریکٹر کی مجموعی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا۔