سولہویں صدی میں شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ مضبوط نظریاتی پنجابی کا درس دیتے ہوئے پنجابی ادب کے افق پر نمودار ہوئے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پنجابی زبان کو کبھی ریاستی یا سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا تاہم پنجابی زبان ہماری رہتل بہتل اور سماج کا ایک مضبوط ستون ہے جس نے پنجاب میں رہنے والوں کو دنیا بھر میں ’’کھلے دل والے‘‘ مشہور کروایا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ پنجاب یا پنجابی کی شناخت میں شہر لاہور کانام سب سے نمایاں ہے اور پوری دنیا میں ’’لہور لہور اے۔ جنے لہور نئی تکیا او جمیاای نئیں‘‘ جیسے جملے زبانِ زدِ عام ہیں۔پنجاب میں رہنے والوں کی پاکیزہ زبان پنجابی کی ترویج و ترقی کا سہرا بھی پاکیزہ لوگوں کے سر ہے جن میں اولاً بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کا نام لیا جاتا ہے۔ جدید دور میں ایسی زبانیں جو کسی ناکسی صورت مقامی ثقافت یا مذہب سے جڑت رکھتی ہیں، ہمیشہ زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور پنجابی اس حوالے سے خوش قسمت زبان ہے کہ اس نے اپنے اندر پنجاب کی دھرتی کی ثقافت اور مذہباً اسلام اورخصوصاً سکھ مذہب کی تعلیمات کو سمو رکھا ہے۔
اگرچہ پنجابی زبان کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک روا رکھا گیا تاہم آج بھی اس زبان کے اندر وہ قوت اور طاقت موجود ہے جو ملکی اور غیر ملکی باشندوں میں تاثیر کا جذبہ رکھتی اور پورے ہندوستان و پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔پنجابی کا خطیر سرمایہ شاعری کی صورت میں ادب کی کھیتی کو سیراب کرتا ہے اور اس کے لیے ہمارے صوفی بزرگوں بابا فرید الدین مسعود گنج شکر،حضرت سلطان باہو، وارث شاہ، بلھے شاہ، بابا فرید مٹھن کوٹی، مادھو لال حسین اور میاں محمد بخش جیسی نابغہ روز ہستیوں نے زرخیزی فراہم کی ہے۔ جدوجہدِ آزادی کے لیے جس قدر قربانیاں اپنے قلم اور بدن سے پنجابیوں نے دی ہیں ان کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے باوجود تعصب کا شکار بھی اسی خطہ کو رکھا گیا۔ اقبال، منٹو،فیض، ساحر لدھیانوی، ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی،عبداللہ حسین، غلام حسین ذوالفقار اور مستنصر حسین تارڑ کے علاوہ استاد کرم امرتسری، استاد عشق لہر، مولا بخش کشتہ،استاد دامن، سائیں اختر لاہوری، مولوی فضل ، منیر نیازی، رؤف شیخ اور جدید پنجابی نظم کاامام پروفیسرعلی ارشد میرؔ(لنگھ اوئے سمیا لنگھ) بھی پنجاب کی دھرتی کے انملے خزانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ضرور پڑھیں : کردار نگاری اور اقبالؒ
پنجابی زبان کے ۱۲ کے قریب لہجے اس سرزمین پر بولے اور سمجھے جاتے ہیں ۔ لہجوں کی تبدیلی اور ثقافت کی چاشنی نے جہاں اس کو وسعت نظری عطا کی ہے وہیں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لہجوں کی تبدیلی کی وجہ سے اس کی ترقی و ترویج کے لیے کوئی باقاعدہ اجتماعی تحریک یا پلیٹ فارم نہیں بن سکا جس کی چھتر چھاں میں اسے مزید پھلنے اور پھولنے کا موقع میسر آئے۔ اس حوالے سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہٰی نے اپنی سابقہ حکومت میں پنجابی ادب کے فروغ کے لیے ادارے قائم کیے تھے۔ وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کے ہاتھوں میں پھلنے پھولنے والا ادارہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویحز (پلاک)ڈاکٹر شائستہ نزہت اور پنجابی سے محبت کرنے والے سینکڑوں ادیبوں کی محبت کے دم سے معرضِ وجود میں آیا۔ڈاکٹر شائستہ نزہت کے بعد ڈاکٹر عباس نجمی نے اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دیں۔ ان کے بعد ماں بولی سے لازوال محبت کرنے والی اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ اینڈ لینگویجز کی ڈائریکٹر جنرل محترمہ صغرا صدف کا نام ہے۔ جنہوں نے پنجاب میں پنجابی زبان کے فروغ کے لیے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے اس عظیم مٹی کی خوشبو کو طول وعرض تک پھیلا دیا ہے۔ وہ پنجابی ادب کے فروغ اور ترقی کےلیے اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں انہوں نے اس بات کا عزم کر رکھا ہے کہ وہ پنجابی زبان و ادب کو فروغ دینے کے لیے مادری زبان میں تعلیم رائج کروانے کو حکومتی سطح پر یا کم از کم صوبہ پنجاب تک بچوں کے سلیبس کا حصہ بنوائیں گی اور اس مقصد کے لیے وہ دن رات جہد مسلسل کر رہی ہیں۔ اخبارات میں پنجابی زبان کی ثقافت، اس کے فروغ اور مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف کالمز لکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف پلیٹ فارمز پر پنجابی رہتل بہتل اور ثقافت کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر پروگرام بھی منعقد کرتی ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے اور پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں بطور مادری مضمون پنجابی کو رائج کروانے کی جستجو کر رہی ہیں۔پلاک کے قیام کے وقت اگرچہ ڈاکٹر شائستہ نزہت کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا مگر ڈاکٹر صغرا صدف نے آج پلاک کو عروج کی جن منازل سے روشناس کروایا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔
اس کے ساتھ ان کی معاون ٹیم جن میں ڈاکٹر خاقان حیدر غازی جیسے دانشور اورڈاکٹر عاصم چوہدری جیسے محنتی لوگوں کی خدمات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس ادارے کی خوبصورتی بھی یہی ہے کہ یہاں ڈاکٹر صغرا صدف کی سرپرستی میں وہی لوگ کام کر رہے ہیں جنہیں پنجابی ماں بولی سے محبت ہے اور وہ اس کی اہمیت جاننے کے ساتھ ساتھ اس کی ترویج کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں۔اس بات سے قطع نظر کہ یہ ادارہ حکومت کی جانب سے کم بجٹ والے اداروں میں شمار ہوتا ہے ، پنجابی ادب کے فروغ کے لیے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے رہا ہے اور امید ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کی سرپرستی میں مزید ترقی کی منازل عبور کرتا رہے گا اور ایک دن ماں بولی کو پنجاب بھر میں بطور لازمی مضمون پنجاب کے نظام تعلیم میں رائج کروا کر آنے والی نسلوں کے لیے سنہری حروف میں اپنی خدمات رقم کرے گا۔ ڈاکٹر صغرا صدف کی خدمات کے پیش نظر یہ ماں بولی کی محافظ بیٹی حق دار ہے کہ انہیں حکومتی امتیازی اعزاز سے نوازا جائے۔