(24نیوز)وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں افراتفری سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا ، ہر صورت افغان طالبان کی حکومت سے بات چیت کی جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو افغانستان داعش کا گڑھ بن جائےگا۔عالمی برادری افغانستان کو تنہا نہ چھوڑے ،وسط ایشیائی ممالک براستہ افغانستان بحرہند، پاکستان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں ، مستحکم افغان حکومت داعش سے بہتر طریقے سے نمٹ سکتی ہے ۔امریکا افغانستان کو امدادی پیکیج دے ۔قائدانہ کردار ادا کرے۔
برطانوی آن لائن خبر رساں ادارے مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کےلئے یہ بہت ضروری ہے کہ واشنگٹن اس چیلنج کو پورا کرے کیونکہ ملک، جہاں امریکا کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے منسلک تنازع میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں، ایک مرتبہ پھر بھاری قیمت ادا کرے گا۔انہوں نے بتایا کہ یہ واقعی نازک وقت ہے اور امریکا کو خود کو اکٹھا کرنا ہوگا کیونکہ امریکا میں لوگ صدمے کی حالت میں ہیں۔انہوںنے کہاکہ وہ کسی طرح کی جمہوریت، قوم کی تعمیر یا آزاد خواتین کا تصور کر رہے تھے اور اچانک انہیں معلوم ہوا کہ طالبان واپس آگئے ہیں اس لئے ان میں بہت غصہ، صدمہ اور حیرت ہے، جب تک امریکا، قیادت نہیں کرے گا ہم پریشان ہیں کہ افغانستان میں افراتفری ہوگی اور ہم اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔عمران خان نے کہا کہ امریکا کے پاس افغانستان میں مستحکم حکومت کی حمایت کےلئے ہر ممکن کوشش کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ طالبان ہی خطے میں داعش سے لڑنے کا واحد آپشن تھے۔افغانستان میں داعش کی علاقائی وابستگی، جسے اسلامک اسٹیٹ صوبہ خراسان کے نام سے جانا جاتا ہے، نے طالبان کے خلاف لڑائی کی ہے اور حالیہ مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں شمالی شہر قندوز میں اہل تشیع برادری سے منسلگ مسجد پر بمباری جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
عمران خان نے کہا کہ دنیا کو افغانستان کے ساتھ مشغول ہونا چاہئے کیونکہ اگر وہ اسے تنہا کرتے ہیں تو طالبان میں سخت گیر لوگ بھی موجود ہیں اور یہ آسانی سے 2000 کے طالبان کے پاس واپس جا سکتا ہے اور یہ ایک تباہی ہو گی۔وزیراعظم نے سویت یونین کی واپسی کے بعد ہونے والی خانہ جنگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اس طرح افغانستان کو چھوڑ دیں گے تو میری پریشانی یہ ہے کہ افغانستان پیچھے جاتے ہوئے 1989 کا افغانستان بن سکتا ہے جہاں انتشار کے دوران 2 لاکھ افغان ہلاک ہوگئے تھے۔عمران خان نے کہا کہ جو بائیڈن سن نہیں رہے تھے، ہم دونوں میں ابھی تک کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 2008 میں اس وقت کے امریکی سینیٹرز جو بائیڈن، جان کیری اور ہیری ریڈ کو خبردار کیا تھا کہ وہ افغانستان میں ایک دلدل پیدا کر رہے ہیں جس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے تاہم انہوں نے نہیں سنا۔انہوںنے کہاکہ دو سال بعد پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہی پیغام امریکی صدر براک اوباما کو بھی دیا تھا’تاہم بدقسمتی سے انہوں نے اپنے جرنیلوں کی بات سنی اور آپ جانتے ہیں کہ جرنیل ہمیشہ کیا کہتے ہیں، ہمیں مزید فوج اور مزید وقت دیں۔انہوں نے بتایا کہ ہمیں طالبان کے پر امن طریقے سے کابل پر قبضے کو دیکھ کر بہت اطمینان ملا کیونکہ ہمیں خون کی ہولی کھیلے جانے کی توقع تھی لیکن جو ہوا وہ اقتدار کی پرامن منتقلی تھی۔انہوں نے کہاکہ ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ ہم اس کے لیے قصوروار ٹھہرائے جارہے ہیں، 3 لاکھ افغان فوجیوں نے بغیر کسی لڑائی کے ہتھیار ڈال دیئے، واضح طور پر ہم نے انہیں ہتھیار ڈالنے کے لئے نہیں کہا تھا۔
طالبان کی جامع حکومت سازی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ یہ جامع حکومت نہیں ہے، یہ حکومت ایک عبوری حکومت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ریاستوں، خاص طور پر تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جو افغانستان کے اندر بڑی تعداد میں نسلی اقلیتیں ہیں تاکہ طالبان کو نمائندگی بڑھانے کی ترغیب دی جا سکے۔انہوںنے کہاکہ انہیں ایک جامع حکومت کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان ایک متنوع معاشرہ ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ اشرف غنی کی حکومت پوری طرح بدعنوان تھی، افغانستان میں جامع حکومت کی ضرورت ہے ، افغانستان میں طالبان کا اقتدار پر امن منتقل ہوا ہے۔عمران خان نے کہا کہ کابل میں کرپٹ حکومت کے باعث طالبان کو شہرت ملی، طالبان نے افغانستان میں 20 برس بعد حکومت سنبھالی ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کو وقت دیا جانا چاہئے، انہوں نے درست بیانات دیئے ہیں اور ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے، اگر ہم ان پر پابندی لگا کر کیا کرلیں گے؟ سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ان کو اپنی بات پر چلنے کی ترغیب دی جائے۔ انہوںنے کہاکہ اگر آپ انہیں مجبور کرتے ہیں تو میں انسان کی فطرت کو دیکھتے ہوئے تصور کروں گا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ تحریک کے اندر واضح طور پر مختلف دھڑے اور چند مسائل پر واضح قیادت کا فقدان ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان اس وقت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ نازک اور سیاسی طور پر حساس مذاکرات میں مصروف ہے جسے اکثر پاکستانی طالبان کہا جاتا ہے۔ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے لئے دو شرائط رکھی ہیں، قبائلی علاقوں میں شرعی قوانین اور قیدیوں کی رہائی جبکہ حکومت پاکستان کا اصرار ہے کہ ان علاقوں میں صرف آئین پاکستان ہی لاگو ہوتا ہے۔عمران خان نے بتایا کہ ٹی ٹی پی 50 گروپس پر مشتمل ہے اور وہ ان عناصر سے صلح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بات چیت کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے کہاکہ اب ہم ان لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں صلح ہو سکتی ہے، میرا ماننا ہے کہ ہر انتشار بالآخر بحث کی میز پر ختم ہو جا تا ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت نے پاکستان سے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین کے اندر سے پاکستان پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔انہوں نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر کابل میں سابق حکومت کے دور میں ان حملوں کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اب ہمیں ان لوگوں سے بات کرنی ہے جن سے ہم صلح کر سکتے ہیں تاکہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور عام شہریوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔عمران خان نے امریکا کی جانب سے افغانستان میں ڈرون حملوں کے مسلسل استعمال کی مذمت کی۔وزیر اعظم نے کہاکہ یہ دہشت گردی سے لڑنے کا سب سے برا طریقہ ہے، ایک گاو¿ں میں مٹی کے گھر پر ڈرون حملہ کرنا اور توقع کرنا کہ وہاں کوئی جانی نقصان نہیں ہوگا، زیادہ تر ڈرون حملوں میں غلط لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔پاکستان کا امریکا کو افغانستان سے داعش کے آپریشن کی اجازت دینے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے 2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں ہونے والے حملے کے بعد سے پاکستان کی طرف سے ادا کی جانے والی انسانی اور مالی قیمت کا بتایا۔انہوںنے کہاکہ کسی بھی ملک نے ہم جیسی بھاری قیمت ادا نہیں کی،0 8 ہزار پاکستانی مارے گئے، معیشت تباہ ہو گئی اور 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ہمیں دنیا کی سب سے خطرناک جگہ کہا جاتا تھا، 35 لاکھ لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہو گئے۔عمران خان نے ایک بار پھر کہا کہ افغان مسئلے میں امریکا کا ساتھی بن کر پاکستان نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا، پاکستان میں کسی اڈے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم دوبارہ کسی تنازعے کا حصہ نہیں بنناچاہتے، ہمیں قربانی کا بکرابنایا گیا ،جو بڑی نا انصافی تھی۔عمران خان نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ امریکی انخلا کے علاقائی اثرات کیا ہوں گے تاہم انہوں نے کہا کہ چین ابھرتی ہوئی قوت ہے جس نے اس خلا میں قدم رکھا اور پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ انہوں نے کہاکہ وہ کونسا ملک تھا جو مدد کےلئے آیا؟ یہ چین تھا جس نے ہماری مدد کی، آپ ہمیشہ ان لوگوں کو یاد رکھتے ہیں جو مشکل وقت میں آپ کی مدد کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 9لاکھ بھارتی فوج نے 80 لاکھ کشمیریوں کو کھلی جیل میں رکھا ہواہے، بھارت کی حکومت مکمل نسل پرست ہے ، کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے، کشمیریوں کوفیصلہ کرنے دیا جائے کہ پاکستان یا بھارت کس کےساتھ رہنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں ایٹمی فلیش پوائنٹ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی ہے، نیوکلیئر ڈیٹرنس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں جنگ نہیں ہوئی، بھارت کو چین کے خلاف مزاحمتی قوت سمجھا جاتاہے، شاید مقبوضہ کشمیر جیسی بدترصورتحال کہیں بھی نہیں ، امریکی اتحادی بننے سے ایسے لوگ ریاست پاکستان پر بھی حملہ آور ہوئے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال پر یو این نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔عمران خان نے کہا کہ مغرب میں مذہب کا تصور بالکل مختلف ہے، مغرب میں لوگ انتہاپسند اور میانہ رو مسلمان میں فرق نہیں کرتے ،یہی اسلاموفوبیا ہے۔۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت نے وینا ملک کیخلاف کیس کا فیصلہ سنا دیا