گھروں اور مختلف کاروباری مقامات پر سلنڈر پھٹنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو مالی اور جانی دونوں طرح کے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔
گزشتہ روز کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز سیون میں سیلنڈر پھٹنے سے دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 1 شخص جاں بحق جبکہ 4 زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی، ڈیفینس فیز 7 خیابان جامی میں سلنڈر دھماکا، 1 شخص جاں بحق، 4 زخمی
گیس سلنڈر دھماکوں کی وجوہات
پاکستان میں گیس سلنڈرز کیوں پھٹتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن پاکستان کے چیئرمین عرفان کھوکھر صاحب نے بتایا کہ پاکستان میں گیس سلنڈرز کا غیر معیاری ہونا اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ان کے بقول اوگرا نے سلنڈرز بنانے کے لیے جن کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے ہوئے ہیں وہ بھی مستند عالمی معیارات اور ایس او پیز کو نظر انداز کرکے غیر معیاری سیلنڈرز ہی بنارہی ہیں۔ اس کے علاوہ گھروں میں استعمال ہونے والے بیش تر سیلنڈرز زائد العیاد یا غیرمستند ہوتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں۔
یاد رہے ایل پی جی گیس سلنڈر پاکستان میں گھروں، رکشوں اور ریسٹورانٹس میں بڑی تعداد میں استعمال ہو رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عرفان کھوکھر نے بتایا کہ معیاری سیلنڈر دھوپ، ٹھوکر اور بعض اوقات آگ سے بھی نہیں پھٹتا۔ دوسری طرف غیر معیاری سلنڈر ذرا سی بے احتیاطی سے پھٹ سکتا ہے کوئی شخص سگریٹ بغیر بھجائے سلنڈر کے پاس پھینک دے تو اس سے بھی حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔
ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن آف پاکستان سے حاصل کردہ اعداد و شمار
اس حوالے سے ایل پی جی انڈسٹری ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین عرفان کھوکر نے 24 نیوز کو کچھ اعداد و شمار سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ غیرمعیاری سیلنڈرز کے استعمال کے باعث ملک بھر میں سیلنڈرز پھٹنے کے اوسطاً دو واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں جس میں اوسطاً 4 سے 6 افراد جاں بحق یا زخمی ہوتے ہیں۔ یہ محتاط اعداد و شمار بھی رپورٹ ہوئے واقعات کی بنیاد پر ہے جبکہ کئی واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔ اس لئے اس قسم کے حادثات کی درست تعداد جاننا بھی مشکل ہے۔
عرفان کھوکھر کے مطابق اگر خالص ایل پی جی کی لاگت کی بات کی جائے تو وہ تقریباً 170،000 روپے ٹن بنتی ہے لیکن اگر اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ملاوٹ کر دی جائے تو یقیناً منافع بڑھ جاتا ہے اور یہی ایسے حادثات کی وجہ بنتا ہے۔
چیئرمین ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن کی طرف سے 24 نیوز کو دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں 15 ایسے بڑے پلانٹس موجود ہیں جہاں پر ایل پی جی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ ان میں سے 2 بلوچستان میں، 7 سندھ میں جبکہ پنجاب کے شہر مظفرگڑھ اور ملتان میں 4 پلانٹس موجود ہیں۔
غیرقانونی کام کرنے والے پلانٹس کے خلاف حکومتی رویہ
اس حوالے سے عرفان کھوکھر کا مزید کہنا تھا کہ ایسوسی ایشن کی جانب سے تمام صوبوں کے آئی جیز کو بارہا خط لکھ کر ایسے غیرقانونی پلانٹس کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے تاکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے لیکن اس بارے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ ایسے حادثات سے بچا جاسکے اور ذمہ دار لوگوں کو قرار واقعی سزا بھی دی جا سکے۔
آئندہ آنے والے وقت میں قدرتی گیس کی کمی ان مسائل میں مزید اضافہ کرے گی کیونکہ گھریلو اور کاروباری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسی صورت میں گیس مل سکے گی۔ ایسی صورت میں ہر گھر اور محلے میں ایک تیار گیس بم موجود ہوگا۔ جس کسی بھی وقت پھٹ جائے گا۔