(ویب ڈیسک) خواجہ سرا معاشرے کا فعال رکن بن سکتے ہیں۔ انہیں جس سپورٹ کی ضرورت ہے وہ ہمارا معاشرہ دینے کو ابھی تیار نہیں اور نہ جانے کتنا وقت لگے ہمارے معاشرے کو بالغ ہونے میں۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ ایسے میں امید دلانے والا بھی کوئی ہو تو امید بنتی ہے ورنہ تو مایوس ہوتے دیر نہیں لگتی۔
ایسی ہی مایوسی کی گھڑیوں میں اُمید کی ایک کرن لاہور میں قائم کیا گیا دینی مدرسہ ’اُمتی‘ ہے جہاں خواجہ سراؤں کو دین اور عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے جو انکی زندگیاں بدلنے میں انتہائی مددگار ثابت ہورہا ہے۔
’اُمتی‘ کا انتظام و انصرام چلانے والے خواجہ سرا ابو ہُریرہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ میری ذات پر یہ اللہ رب العزت کا خاص کرم تھا جب مجھے نماز اور دین کی محبت عطا ہوئی۔
خواجہ سرا طبقے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آغاز میں یہ سب اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ پیٹ پالنے اور زندگی گزارنے کیلئے جو کچھ انہیں کرنا پڑتا ہے اس سب کیساتھ کسی کا اللہ رب العزت کے دین کی طرف جانا قابل قبول نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان کے اپنے طبقے کے لوگ انہیں تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔
ابو ہُریرہ کے مطابق ان حالات میں انہیں اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو دین کے راستے کو اپنانا انتہائی مشکل تھا، خاص طور پر جب دین کے بنیادی اراکین نماز اور قرآن کیلئے بھی انہیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت تھی، ایسے میں ان کو ہماری مساجد اور مدارس میں بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا تو ان کیلئے دین اسلام کے بارے میں مزید کچھ بھی سیکھنا ممکن نہیں تھا۔
خواجہ سراؤں کی اس مخصوص درسگاہ کا نام منتخب کرنے کے بارے میں ابو ہُریرہ نے بتایا کہ ویسے تو ہمیں شاید اس معاشرے کا فرد ہی نہیں سمجھا جاتا لیکن جب انہوں نے ہمیشہ اللہ رب العزت کا دین سکھانے والوں سے یہ سُنا کے سب نبی آخر الزماںﷺ کے اُمتی ہیں تو ہم بھی انہی امتیوں میں شامل ہیں۔ ہمیں بھی ان کی محبت میں ان کی تعلیمات سیکھنے کا پورا حق ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اُمتی‘ کی تعمیر کیلئے پہلے ایک مکان کرائے پر لیا گیا اور قریب کی مسجد کے ایک قاری صاحب سے ان کے تعاون کی درخواست کی گئی تاکہ خواجہ سرا جو اللہ کے دین، سنت اور نماز کے متعلق سیکھنے چاہتے ہیں وہ مستفید ہوسکیں۔
اس درسگاہ کے آغاز پر اُمید سے بڑھ کر خواجہ سرا دین کی محبت میں وہاں آنے لگے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، ان کے مطابق 4 سو کے قریب خواجہ سرا اس درسگاہ سے دین اسلام اور طہارت و پاکیزگی کے مسائل سیکھ چکے ہیں، کئی اس دوران دنیا سے بھی گزر گئے جن کے کفن دفن اور نمازِ جنازہ تک انہیں خواجہ سراؤں نے ادا کیے جو اس درسگاہ میں اسلام کی تعلیمات سیکھنے آئے تھے۔
اس درسگاہ کی اخراجات اور باقی انتظامات کے حوالے سے ابو ہُریرہ کا کہنا تھا کہ آغاز کے دنوں میں ان کے دوستوں نے ان کے ساتھ ملکر یہاں کا نظام چلانے کیلئے پیسوں کا بندوبست کیا جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی جانب سے کچھ خصوصی مدد حاصل رہی اور بہت سے لوگ اس کار خیر میں ان کے ساتھ ملتے گئے۔
’اُمتی‘ میں ان خواجہ سراؤں کی رہائش کا انتظام بھی موجود ہے جو یہاں دین اسلام کی تعلیمات کیلئے آتے ہیں۔
اس سب کے بعد اس امر کی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے کے اس طبقے کو قبولیت دی جائے اور ان کے حقوق اور مذہبی و معاشرتی نظام میں انہیں شامل کیا جائے تاکہ یہ معاشرے کے بہتر شہری بن سکیں۔