(24 نیوز)مولانا کا سیاسی کھیل ،کبھی ادھر کبھی ادھر،آئینی ترامیم کیلئے نواز شریف اور بلاول بھٹو کا گٹھ جوڑ،سعودی عرب سے قرض کیلئے منتیں،ترلے،آرمی چیف نے کمال کردیا۔
ایک بار پھر آئینی ترامیم کے معاملے پر جے یو آئی ف نے حکومت سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں ۔ایک وقت میں ایسا لگ رہا تھا کہ شاید حکومت نے جے یو آئی ف کو آئینی ترامیم کیلئے قائل کرلیا ہے لیکن حکومت جن پر تکیہ کئے ہوئے تھی وہی پتے پھر سے ہوا دینے لگے ہیں ۔جے یو آئی ف آئینی عدالتوں کے قیام کے حق میں تھی لیکن اب جے یو آئی ف نے اِس پر اپنا مؤقف تبدیل کرلیا ہے۔ جے یو آئی ف کا مطالبہ ہے کہ آئینی عدالتوں کی بجائے آئینی بینچ تشکیل دیے جائے۔سینیٹر کامران مرتضی کہتے ہیں کہ مولانا نے آئینی عدالت کی بات کی تھی لیکن لوگ اس چیز کو قبول نہیں کر رہے۔اس لیے اب ہماری یہ تجویز ہو سکتی ہے کہ الگ آئینی عدالت کے بجائے اسی عدالت میں ایک آئینی بنچ بنا دیا جائے۔
اب اِسی طرح جے یو آئی ف کے پارٹی ترجمان اسلم غوری کہتے ہیں کہ ایسی آئینی عدالت نہیں چاہتےجوسپریم کورٹ سےاوپر ہو،اگرحکومت آئینی عدالت خود بناسکتی ہوتی تواب تک بنا لیتی،اب جے یو آئی ف نے حکومت کو بڑا سیاسی جھٹکا دیا ہے۔اب حکومت تو باضد ہے کہ آئینی عدالتوں کا قیام ہر صورت میں ہو۔وزیر دفاع خواجہ آصف جے یو آئی ف کی تجویز کو مسترد کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ آئینی عدالت کی بجائے آئینی بنچ بنانا تو گناہ بے لذت والی بات ہوگی یعنی اب جے یو آئی ف اور حکومت میں آئینی ترامیم کو لے کر ایک بار پھر ڈیڈ لاک کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
جے یو آئی ف کی سیاسی قلابازیوں کی وجہ سے حکومت اور اُس کے اتحادی بھی سر جوڑتے نظر آئے۔ آج بلاول بھٹو کی نواز شریف سے اہم وقت پر اہم ملاقات ہوئی ۔ملاقات میں مجموعی صورتحال اور درپیش مسائل خصوصاً مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔بلاول بھٹو آئینی ترمیم سے متعلق اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور ان کی نواز شریف سے ملاقات بھی اِن کے اسی ایجنڈے کا حصہ ہے، حکمراں اتحاد میں شامل دونوں رہنما بظاہر مجوزہ آئینی ترامیم پر یکساں موقف رکھتے ہیں۔لیکن جے یو آئی ف اپنے مؤقف میں آئے روز تبدیلی لا رہی ہے ،اور ظاہر ہے یہ حکومت کیلئے تشویش کی بات ہے ۔لیکن دوسری جانب مولانا کی نہ پر تحریک انصاف خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔اور مولانا کی طرز سیاست کی تعریف کر رہی ہے بیرسٹر سلمان اکرم راجہ اور شیخ وقاص اکرم کہتے ہیں کہ آئینی ترامیم کے ذریعے حکومت بڑی تباہی کرنے جارہی تھی جس کو مولانا فضل الرحمان نے روکا ہے۔
اب جہاں تحریک انصاف مولانا کے سیاسی کردار کی معترف ہے تو وہیں پر سینئر سیاستدان مصطفی نواز کھوکر بھی مولانا کے سیاسی کردار کو سراہتے نظر آرہے ہیں ۔مصطفی نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ یہ لوگ آئینی ترامیم لاکر نظام کو ختم کرنے والے تھے لیکن مولانا صاحب حکومت کے راستے میں کھڑے ہوگئے ۔مولانا نے اچھا کردار ادا کیا،اب مولانا فضل الرحمان کی سیاست کی تعریف ہورہی ہے جبکہ آرٹیکل 63 اے کے عدالتی فیصلے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ مولانا کی اہمیت کم ہوجائے گی لیکن مولانا نے اپنا سیاسی وزن پھر سے بڑھا لیا ہے۔وہ حکومت کو گول گول گھما رہے ہیں ۔اور حکومت کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ آخر اُس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔شاید یہی وجہ تھی کے جے یو آئی ف کے بھروسے پر بیرسٹر عقیل ملک نے ہمارے پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ آئینی عدالتوں پر سب جماعتوں کا اتفاق ہوگیا ہے۔
اب اتفاق کی بجائے اختلا ف ہی نظر آرہا ہے ۔جے یو آئی ف اب بھی آئینی ترامیم پر سولات اُٹھا رہی ہے اور اب تو یہ سوال بھی بار بار اُٹھایا جارہا ہے کہ حکومت آئینی مسودے کو پبلک کیوں نہیں کر رہی ۔ مصطفی نواز کھوکھر نے آئینی مسودہ پبلک کرنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے ،اور آج سابق سینیٹر بشریٰ گوہر نے آئینی ترامیم کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ جو بھی ترامیم ہوں گی، پہلے عوام کے سامنے لائی جائیں، ۔یعنی اب آئینی مسودے کو پبلک کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔لیکن حکومت اِس مسودے کو خفیہ رکھ کر شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا بھی شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ جس دن آئینی ترمیم پیش کرنے کیلئے انھوں نے رات 12 بجے تک اجلاس لیٹ کیا اس روز ہمارے 7 ایم این ایز کو اغواء کرکے پارلیمنٹ ہاؤس کے ایک مقام میں پہنچا دیا گیا تھا ۔لیکن مولانا فضل الرحمن نے ان کی گیم خراب کردی۔