قائد اعظم کا 74 واں یوم وفات اور آج کا پاکستان

تحریر :حافظہ فرسہ رانا

Sep 11, 2022 | 11:31:AM

اگر ہم ماضی میں گزرے ہوئےواقعات کو دیکھیں،  ان کی تاریخ یا سال نہ دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب آج کے ہی واقعات ہیں ۔حالانکہ وہ واقعات دس بیس سال پرانےہوتے ہیں۔  بہت سے واقعات دہرائے جانے کی گواہی مل جاتی ہے مگر اس کے باوجود کوئی اس حقیقت کو ماننے پر تیار نہیں کہ ہم ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

 آج بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا 74 واں یوم وفات انتہائی عقیدت و احترام سے آج منایا جارہا ہے۔ اس موقع پر سرکاری اور نجی سطح پر مختلف تقریبات کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

محمد علی جناح کو 1937 میں مولانا مظہرالدین نے ’قائداعظم‘ کا لقب دیا۔ ان کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانان ہند نے الگ وطن ’پاکستان‘ حاصل کیا اور انگریزوں کے تسلط سے چھٹکارا پایا۔

قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز 1882 میں اپنے آبائی شہر سے کیا اور 1893 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے انگلینڈ چلے گئے۔ 1896 میں قائد اعظم نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور وطن واپس لوٹ آئے۔محمد علی جناح پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اور وطن واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی قائداعظم کا شمار برصغیر کے مایہ ناز قانون دانوں میں کیا جانے لگا تھا۔

برصغیر واپسی کے بعد قائداعظم نے سیاست میں باضابطہ طور پر حصہ لیا اور 1906 میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ کانگریس کا حصہ بننے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ یہ جماعت برصغیر کے تمام باسیوں کی نہیں بلکہ صرف ہندوؤں کی نمائندہ جماعت ہے۔قائداعظم نے 1913 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی مگر امید کا دامن نہ چھوڑا اور کانگریس کے ساتھ بھی کام کرتے رہے۔ کانگریس کی ہندو نواز پالیسیوں سے تنگ آکر بالآخر 1920 میں قائداعظم نے کانگریس کو خیرآباد کہہ دیا اور آخری سانس تک مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ سے وابستہ اختیار کر لی۔

اسی جماعت کی چھتری تلے ہی قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم اس پاک وطن کے پہلے گورنر جنرل بنے اور 11 ستمبر 1948 میں وفات تک اس عہدے پر تعینات رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ وطن دِلایا پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کے خواہش مند  تھے لیکن ان کی بیماری نے ان کے تعمیری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا ۔

اب اگر موجودہ ملکی حالات پر نظر ڈالی جائے تو   حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس کے باوجود سیاست دانوں نے اپنی سیاست چمکانا نہیں چھوڑی۔ہر کوئی اپنے آپ کو بہترین ثابت کرنے کی جی توڑ کوشش کر رہا ہے۔ہماری ستم ظریفی تو دیکھئے اقوام متحدہ کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک سے سیلاب زدگان کے لیے امداد کی جو اپیل کی تھی،اُس کے جواب میں ایک کھرب30کروڑ روپے کے عطیات کی یقین دہانی کرا دی گئی لیکن کیا وہ امداد مستحق لوگوں تک پہنچی؟ ہزاروں نہیں لاکھوں افراد خیموں سے محروم ہیں،زندگی اُن کے لیے ایک عذاب بن گئی ہے،ایسے میں یہاں اربوں کھربوں روپے کی دوڑ جاری ہےہمارے حکمران فی الوقت  اپنی جیب سے اِن مظلوموں کی مدد کرنے کے بجائے،لوگوں سے مانگتے پھر رہے ہیں۔،کسی ایک سیاست دان نے بھی اپنے پلے سے سیلاب زدگان کی امداد نہیں کی،ایک آنہ خرچ نہیں کیا۔سب ارب پتی ہیں مگر پیسے عوام سے مانگ رہے ہیں، جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ڈیرہ غازیخان ڈویژن کا دورہ کیوں نہیں کیا کیوں امدادی سامان لے کر سیلاب زدگان کی امداد کے لئے نہیں پہنچے، لوگ دور دور سے امدادی سامان لے کر ڈیرہ غازیخان، راجن پور، تونسہ اور فاضل پور پہنچ رہے ہیں کیا ان لوگوں کی مدد کرنا ان کا احساس کرنا ہمارے حکمرانوں کا فرض نہیں تھا لیکن عام عوام نے ان سے زیادہ اپنا دل بڑا کیا۔

خیر بات کہا سے کہا جا پہنچی آج 11 ستمبر ہے یعنی بانی پاکستان کی تاریخ وفات کا دن ہے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ سب دیکھ کر ان کا دل خون کے آ نسو نہ روتا۔ کیا انہوں نے اس دن کے لیے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کی جدوجہد کی تھی۔ آ زادی کی جنگ لڑی تھی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنی بیماری کو نظر انداز کر کے دن رات ایک کیے تھے کہ جب ایک الگ وطن مل جائے وہاں پر مسلمان ہی دوسرے مسلمان کا دشمن ہو ں۔کیا اس دن کے لیے قائد اعظم نے محنت کی تھی کہ جیسے برصغیر میں مسلمانوں کی حق تلفی ہوتی تھی اب بھی ویسی ہی ہوں۔

حق تلفی تو ہو رہی ہیں لیکن افسوس آج یہ حق چھیننے والا کوئی باہر کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہیں۔

قائد اعظم کی وفات کو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود ا ن کے یوم وفات پر ہزاروں افراد کی ان کی لحد پر حاضری اور مختلف شہروں میں منعقد ہونے والی تقریبات اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ پاکستانی قوم ان سے آج بھی والہانہ عقیدت رکھتی ہے۔لیکن آخر میں یہ بات تو ضرور کہی جا سکتی ہیں’’ اے قائد اعظم ہم شرمندہ ہیں کیونکہ جس پاکستان کا خواب آپ نے دیکھا تھا ہم اسے مکمل نہیں کر سکے‘‘۔

نوٹ:یہ تحریر بلاگر کا زاتی نقطہ نظر ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں ہیں۔

مزیدخبریں