ملالہ یوسفزئی کی پہلی ڈاکیومینٹری کی ٹورنٹوفلم فیسٹیول میں نمائش
مستقبل میں پاکستانی فلمیں پروڈیوس کرنے اورپاکستانی اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کاعندیہ دے دیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی پروڈکشن میں بننے والی پہلی ڈاکیومینٹری کینیڈا میں ہونےوالے ٹورنٹوفلم فیسٹیول میں پیش کردی گئی،انہوں نے مستقبل میں پاکستانی فلم سازوں اور فنکاروں کے ساتھ بھی کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
ملالہ یوسف زئی ماضی میں پاکستانی فلم ”جوائے لینڈ“ پروڈیوس کر چکی ہیں اور حال ہی میں بطور پروڈیوسر ان کی پہلی ہالی وڈ دستاویزی فلم ”دی لاسٹ آف دی سی ویمن“کینیڈامیں ہونے والے ٹورنٹوفلم فیسٹیول میں پیش کی گئی ہے۔
ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں پاکستانی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے مستقبل میں پاکستانی فلمیں پروڈیوس کرنے سمیت پاکستانی اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کاعندیہ دیا،ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی ایک پاکستانی فلم کو سپورٹ کیا ہے اور جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ پاکستانی فلموں کو ضرور سپورٹ کرتی ہیں، ہر کسی کو پاکستانی فلموں،ڈراموں اور اداکاروں کو سپورٹ کرنا چاہیے، پاکستان میں اچھے موضوعات پر ڈرامے اور فلمیں بنتی ہیں۔
ملالہ کی پروڈکشن کمپنی"ایکسٹرا کریکیولر" کی ڈاکیومینٹری فلم"دی لاسٹ آف دی سی ویمن"جنوبی کوریا کی خواتین مچھیروں کے گرد گھومتی ہے جس میں جنوبی کوریا کے جیجوآئی لینڈ کی ہائینو کمیونٹی کی خواتین مچھیروں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
ہائینوکمیونٹی کوسال 2016ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم،سائنس اورثقافت (یونیسکو) نے ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا کیونکہ صدیوں پرانی اس کمیونٹی کا وجود اب خطرے میں ہے،اس کمیونٹی کی لگ بھگ تمام خواتین ہی 60، 70 یا 80 برس کی عمر کی ہو چکی ہیں۔
ملالہ نے خبررساں ادارے "اے ایف پی" کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ میں خواتین سے متعلق کہانیاں تلاش کر رہی تھی اور جب میں نے کورین ہدایت کارہ سو کم کے پروجیکٹ کے بارے میں سنا تومیں نے کہایہی وہ کہانی ہے جس کی مجھے تلاش تھی،جب میں نے ہائینو کمیونٹی کی کہانیاں سنیں تواس نے مجھے خواتین کی صلاحیتوں اورامکانات سے متعلق بہت متاثر کیا۔
1960 کی دہائی میں لگ بھگ 30 ہزارخواتین پر مشتمل ہائینو کمیونٹی کی خواتین اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے سمندر سے بڑی سے بڑی مچھلی کا شکار بھی کر لیتی تھیں تاہم اب ان خواتین کی تعداد کم ہو کر چار ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
ملالہ یوسفزئی کواقوامِ متحدہ نے سال 2014ء میں 17 برس کی عمرمیں امن کے نوبل انعام سے نوازا تھا۔