(24نیوز) سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں پی ٹی آئی ووٹر نے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر دی۔
سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی کارکن اقرا مبارک کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے ، درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انتخابی نشان چھینے جانے سے پارٹی کا کوئی نقصان نہیں ہوا، اقرا مبارک نے تحریک انصاف کا چیئرمین بننے کی بھی استدعا کی،درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ پی ٹی آئی ووٹر ہوں، حامدرضا کو گزشتہ انتخابات میں ووٹ اور سپورٹ کیا، انتخابات میں حلقہ این اے104 سے چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزد کردہ تحریک انصاف کی امیدوار تھی، پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ماضی میں تبدیل ہوتا رہا، انتخابی نشان اہم نہیں بلکہ پارٹی کی رکنیت اہم ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت نے امیدواروں کو دو پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی ہدایت کی جو غیرقانونی ہے، بعد ازاں تحریک انصاف کے امیدواروں نے بطور آزاد امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کروائے،اقرا مبارک نے درخواست میں یہ بھی کہا کہ عدالت تحریک انصاف کے امیدواروں کے بیان حلفی، امیدواروں کی لسٹ کی طرف توجہ دے، عدالت سنی اتحاد کونسل کے انٹرا پارٹی انتخابات، تحریک انصاف کے امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بیان حلفی دیکھے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ووٹرز نے بانی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا لیکن 41 تحریک انصاف کے امیدواروں نے ووٹرز کے ساتھ فراڈکیا، 41 امیدواروں کو تحریک انصاف نے ٹکٹ دیا جو خود کو آزاد امیدوار ڈیکلیئر کررہے، ووٹرز کے ساتھ دھوکا ہوا،اقرا مبارک نے اپنی درخواست میں سوال کیا کہ حامد رضا کیا دو پارٹیوں کے رکن ہوسکتے؟ حامد رضا کے استعفیٰ دینے پر انتخابات کے دوران سنی اتحاد کونسل کا چیئرمین کون تھا؟ حامد رضا کا استعفیٰ الیکشن کمیشن کو ملا؟ نئے چیئرمین کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے؟ سنی اتحاد کونسل نے آج تک کتنے انٹرا پارٹی انتخابات کروائے ہیں؟۔
درخواست گزار نے سوال کیا کہ میں نے تحریک انصاف کی کارکن ہونے کے ناطے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ فراہم کی تھی، ضروری نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی درج کردہ لسٹ ہی تسلیم کی جائے، تحریک انصاف کا کوئی چیئرمین انٹر پارٹی انتخابات سے منتخب نہیں ہوا، سپریم کورٹ اجازت دے اور بطور عارضی چیئرمین پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کرنے کی اجازت دے۔