میں اللہ کا انعام،میں پاکستان ہوں
Stay tuned with 24 News HD Android App
تحریر :اظہر تھراج
میں 75 برس کا ہوگیا ہوں ،دو روز بعد لوگ میری ڈائمنڈ جوبلی منائیں گے،کچھ ترانے گائیں گے تو کچھ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر اپنے جذبے کا اظہار کریں گے،بچے ’’باجے‘‘بجا کر میرے وجود کو اذیت بخشیں گے،میرا پیدا ہونا دنیا کیلئے حیران کن تھا اور دشمنوں کیلئے پریشان کن ۔
یہ ایک بہت لمبی کہانی ہے۔ ایک کٹھن سفر ہے،میں وہ واحد ملک ہوں جس کا نام اور کام پیدا ہونے سے پہلے ہی تجویز کرلیا گیا تھا۔ 1947ء میں جب میرا جنم ہوا تو مفلوک الحال غریب کے بچے کی طرح میرے تن پہ کپڑے، پیٹ میں نوالے نہیں تھے۔ میرا بچپن اور لڑکپن ایسے ہی گزر گئے بلکہ اس حال میں مجھے کئی لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں، جس کے مجھ کو زخم بھی آئے جن سے آج بھی خون رس رہا ہے۔
میری پیدائش پر جہاں خوشیاں منائیں گئیں تو وہیں لاکھوں قربانیاں بھی دی گئیں، کئی سہاگ اجڑے تو لاکھوں یتیم ہوئے،ایک جنگ و جدل کی کیفیت تھی ۔ مجھے بچپن سے لیکر آج تک آئین کی زنجیروں میں جکڑنے کی کئی بار کوشش کی گئی، پہلے انگریزوں کا قانون لاگو کیا گیا۔ پھر 1949ء میں قرارداد مقاصد کے نام پر مجھے ’’مولوی ‘‘بنانے کی کوشش کی گئی، یہ بات جب سیکولر طبقے کو ہضم نہ ہوئی تو مجھے ’’لادین ‘‘ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ 1952ء اور 1956ء میں ایک بار پھر آئین کی زنجیریں پہنائیں گئیں جو دو سال بعد ہی ٹوٹ گئیں۔
1962ء، 1973ء میں بھی آئین آئین کا کھیل کھیلا گیا، جن میں کئی بار تبدیلیاں ہوئیں لیکن آج تک اپنی روح کے حساب سے کبھی نافذ نہ ہو سکا۔ مجھ پر طرز حکمرانی کے بھی طرح طرح کے تجربے کیے گئے۔ کبھی جمہوری نظام لایا گیا تو کبھی فوجی چھتری تلے پناہ ڈھونڈی گئی، کبھی اسلامی سوشلزم کا سہارا لیا گیا تو کبھی خود ساختہ شریعت کا، میرے بیٹوں نے مجھ پر بندوق کے ذریعے اپنا حکم چلانے کی کوشش کی،میرے جسم پر آج بھی کوڑوں کے نشانات ہیں ۔
میں75 سال کا ہوگیا ہوں، لیکن آج بھی غریب ہوں۔ آج بھی کمزور ہوں، مجھے اپنی سانسیں بحال رکھنے کیلئے آج بھی ان کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے جن سے میں نے آزادی حاصل کی ۔بھلا کیوں؟ کبھی سوچا میرے ساتھ جنم لینے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ میرے سے 2 سال بعد ہمسائے میں جنم لینے والا چین جس کا دنیا مذاق اڑاتی تھی۔ جو مجھ سے کئی درجے کمزور تھا۔ کل تک مجھ سے بھیک مانگتا تھا۔ آج دنیا پر راج کرتا ہے۔ دنیا کے سب وسائل اس کے قدموں میں ہیں۔ کل دنیا جسے گونگا سمجھتی تھی آج وہ بولتا ہے دنیا سنتی ہے۔
ضرور پڑھیں:سازشی بیانیہ دفن،عمران خان کا معاہدہ سامنے آگیا
1947ء سے قبل ایک گورے انگریز کا غلام تھا آج کئی کالے انگریزوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہوں۔ معاشی طور پر سرمایہ دار گلا گھونٹ رہا ہے تو جاگیردار غریب کے بچوں کو اپاہج کر رہا ہے۔ ایسے گھناؤنے کام کیے جارہے ہیں کہ مجھے اپنا منہ چھپانا پڑ رہا ہے۔یہاں آزادی کے اپنے اپنے پیمانے ہیں،اپنے اپنے قوانین ہیں،غریب کیلئے الگ تو اشرافیہ کیلئے الگ قانون ہے،غریب سائیکل چوری میں پھانسی چڑھ جاتا ہے،امیر اربوں،کھربوں لوٹ کر بھی باعزت کہلاتا ہے۔
یہاں آزادی ہے تو سود خوروں کو ہے، یہاں بھتہ خوروں، بدعنوانوں، جھوٹے، منافقوں، ذخیرہ اندوزوں، دہشتگردوں، کام چوروں، خوشامدی سیاستدانوں کو آزادی ہے۔ یہاں کی صحافت تجارت بن چکی ہے،یہاں بیانیے بکتے ہیں،لیڈرز کی بولی لگتی ہے، یہاں علم نیلام ہوتا ہے ۔ سیاست بدنام ہوچکی، غیرت بے نام ہوچکی، یہاں کی تجارت پیشہ پیغمبری نہیں رہی، تھانوں میں جائے تو انسان کپڑے بھی اتروا کر نکلتا ہے، یہاں کے پولیس والے سگریٹ کی ڈبیا کی خاطر اپنا ایمان فروخت کردیتے ہیں، استاد، استاد نہیں رہا اور شاگرد، شاگرد نہیں رہا۔ علم دینے والے صنعتکار بن گئے اور علم حاصل کرنے والے سردار بن گئے ہیں۔ یہاں غریبوں کے بچے راتوں کو بھوکے سوجاتے ہیں اور بڑے بڑے گھروں اور توندوں والے پوچھنا تک گوارہ نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھیں :ٹک ٹاک پر پابندی عائد
میرا نام لے کر سبھی اپنا الو سیدھا کرتے ہیں لیکن میرے وجود کو ٹھیک کرنے کا بندوبست نہیں کرتے،میری مظلومیت کے نام پر چندہ لیتے ہیں اور پارٹیاں بناکر مجھےہی تکلیف دیتے ہیں ۔سب تکالیف کے باوجود میں مایوس نہیں،مایوس نہ ہونے کی وجہ میرا پاک وجود ہے،میرا نام ہے،میں نے مشکل دنوں میں دشمن کا مقابلہ کیا اورسرخرو ٹھہرا ،میں نے ایٹمی قوت حاصل کرکے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر بنایا ،میں نے 2 عالمی طاقتوں کو اپنے سامنےگھٹنوں پر جھکتے دیکھا ،دہشتگردی کیخلاف میں نے دنیا کی مشکل ترین جنگ جیتی ،کورونا کی وبا کا مقابلہ کیا ،حالیہ چیلنجر میرے لئے کوئی بڑی بات نہیں ،میرے بیٹے سرحدوں پر موجود ہیں۔ وہ مجھے بچائیں گے۔ مجھے فخر ہے ان ماؤں پر جو اپنے بیٹوں کی جدائی تو سہتی ہیں لیکن میرے خلاف اٹھنے والی آواز کو کبھی برداشت نہیں کرتیں۔ دنیا مجھے میرے روشن مستقبل کی نوید سنا رہی ہے، میں ایک روشن دلیل ہوں۔ میں اللہ کا انعام ہوں۔ میں پاک ہوں کیونکہ ’’میں پاکستان ہوں‘‘۔
بلاگرسٹاف ممبر، سینئر صحافی، یوٹیوبر اور مصنف ہیں۔ روزنامہ خبریں، نوائے وقت اور ڈیلی پاکستان میں کام کرچکے ہیں۔ ان سے ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر @azharthiraj کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔