ماحولیاتی تبدیلی اور گرین اکانومی میں خواتین کا کردار 

تحریر:روزینہ علی

Aug 12, 2024 | 19:40:PM
ماحولیاتی تبدیلی اور گرین اکانومی میں خواتین کا کردار 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سب سے پہلے تو گرین اکانومی یا سبز معیشت کو سمجھ لیتے ہیں کہ کیا ہے؟ سبز معیشت یا گرین اکانومی ایک ایسا اقتصادی نظام ہے جس کا مقصد معاشی ترقی کو ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ متوازن کرنا ہے، اس کا بنیادی مقصد قدرتی وسائل کا تحفظ، ماحولیات کی بہتری، اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا ہے، تاکہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے ایک پائیدار زندگی کو یقینی بنایا جا سکے اب اس سبز معیشت میں کئی اہم عناصر ہیں جن میں شامل ہے قابل تجدید توانائی، توانائی کے ذرائع جیسے شمسی، ہوا، اور پانی کی توانائی کو فروغ دینا ،جو روایتی فوسل فیول کی جگہ لے سکتے ہیں۔

 پھر ہے وسائل کا موثر استعمال یعنی قدرتی وسائل جیسے پانی، زمین، اور جنگلات کا استعمال اس طریقے سے کرنا کہ ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے اور ضیاع کو کم کیا جا سکے لیکن اگر ہم اپنے اس پاس نظر دوڑائیں تو پانی کا بہت زیادہ ضیاع ہے، بے دریغ استعمال ہے، جنگلات کا کٹاؤ تیز ی سے جاری ہے، پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں اسی طرح درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جائے جنگلات ختم ہو جائیں تو سانس لینا زندگی گزارنا مشکل ہے، پھر اسی طرح کم کاربن معیشت ہے، یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لئے نئی ٹیکنالوجیز اور پالیسیوں کا نفاذ کرنا اور ایک اہم عنصر ہے ماحولیاتی قوانین اور پالیسیز ماحولیاتی تحفظ کے قوانین کو سختی سے نافذ کرنا اور کاروباری اداروں کو ماحولیاتی معیار کے مطابق کام کرنے کی ترغیب دینا اور اب شاید وقت کی ضرورت ہے کہ کاروباری اداروں کو بھی ٹریننگز دی جائیں۔

پائیدار زراعت اور صنعتی پیداوار بھی ایک انتہائی اہم عنصر ہے مطلب زراعت اور صنعت میں ایسے طریقے اپنانا جو ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر پیداوار کو بڑھائیں تو سبز معیشت کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو اس طرح ترتیب دیں کہ وہ ماحولیاتی نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہوں اور قدرتی وسائل کو محفوظ رکھ سکیں، اس طرح ہم نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی ایک محفوظ اور پائیدار ماحول فراہم کر سکتے ہیں لیکن نسلوں کو چلانے والی عورت کو اگر ان تمام چیزوں سے نکال دیا تو پھر ملک کا خوشگوار سرسبز مستقبل ممکن نہیں لیکن آپ سوچتے ہونگے کیسے خواتین اپنا کردار ادا کریں وہ کیا کر سکتی ہیں؟ اچھا ہے سوچیے اور ذرا مثبت پہلوؤں سے سوچیے. چلیں کچھ مدد آپکی میں کرتی ہوں.

خواتین سبز معیشت میں مختلف طریقوں سے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، ان کا کردار کئی سطحوں پر اثر انداز ہوتا ہے، جن میں سماجی، اقتصادی، اور ماحولیاتی پہلو شامل ہیں، یہاں کچھ اہم طریقے ہیں جن کے ذریعے خواتین سبز معیشت میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔

کاروبار اور انٹرپرینیورشپ ایک بہترین ذریعہ ہے یعنی خواتین قابل تجدید توانائی، ماحول دوست مصنوعات اور سبز ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کاروبار شروع کر سکتی ہیں، انٹرپرینیورشپ کے ذریعے وہ نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈال سکتی ہیں بلکہ ماحولیات کی بہتری میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں،تعلیم اور آگاہی کے پروگرامز کے ذریعے ماحولیات اور سبز معیشت کے متعلق تعلیم دے کر انہیں ماحولیاتی مسائل کے حل کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، وہ اپنی کمیونٹیز میں آگاہی پیدا کر سکتی ہیں اور پائیدار طرز زندگی کی طرف لوگوں کو مائل کر سکتی ہیں۔

خواتین حکومتی اور غیر حکومتی تنظیموں میں ماحولیاتی پالیسی سازی کے عمل میں شامل ہو سکتی ہیں، ان کی شرکت سے ایسی پالیسیاں بن سکتی ہیں جو زیادہ جامع اور مؤثر ہوں۔ اور جسکی  مثال اسلام آباد کی 2 روزہ منفرد کانفرنس میں بھی نظر آ رہی ہے جو کہ خواتین کو با اختیار بنانے اور سبز معیشت میں انکے کردار سے متعلق ہے، خواتین اکثر خاندان میں خریداری اور وسائل کے استعمال کے فیصلے کرتی ہیں، وہ اپنے گھروں میں ماحولیاتی لحاظ سے بہتر عادات کو فروغ دے سکتی ہیں، جیسے کہ کم توانائی کا استعمال، ری سائیکلنگ اور پانی کی بچت وغیرہ ہے، دیہی علاقوں میں خواتین زراعت میں ماحولیاتی طور پر محفوظ طریقوں کو اپنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں، جیسے کہ حیاتیاتی کاشتکاری اور پانی کے انتظام کی بہتر تکنیکیں۔

خواتین مقامی سطح پر ماحول دوست منصوبوں میں شرکت کر سکتی ہیں، جیسے کہ شجرکاری مہمات، کمیونٹی گارڈنز اور قدرتی وسائل کا تحفظ ہے تو زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں خواتین کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن جس طرح تیزی سے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ماحولیاتی چیلنجز بڑھ رہے ہیں خواتین کو اسی قدر مسائل بھی درپیش ہیں، ان مسائل کو کیسے کم کیا جائے اس کا احساس شاید پہلے کبھی حکومتوں یا تنظیموں کو نہیں ہوا اسی لیے جب سال 2022 میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب کا سامنا ہوا تو سب سے زیادہ مشکلات خواتین کے لیے تھیں، حاملہ خواتین کے بے انتہا مسائل تھے، ہائیجین کے مسائل دیکھنے کو ملے اور دیکھا جائے تو اس کے بعد ہی متعدد ادارے ایکٹیو ہوئے کہ قدرتی آفات ہوں، معاشی مسائل ہوں ماحولیاتی چیلنجز ہوں خواتین کے لیے سوچنا ہوگا ایک پورے کنبے کو سنبھالنے والی عورت کے لیے ایک بہتر پالیسی بنانی ہوگی ان کو اختیار بنانا ہوگا۔

 گرین اکانومی میں ان کا کردار بنانا ہوگا ان کو سراہنا ہوگا اسی لیے اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر 2 روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے خواتین کی برابری اور بااختیاری کے بغیر سبز معیشت کی منتقلی ممکن ہی نہیں اب ماہرین مان چکے ہیں کہ سبز معیشت یعنی گرین اکانومی کے ایجنڈے کو حاصل کرنے کے لئے خواتین کی برابری اور با اختیاری اہم ہیں،اعلیٰ سطحی اس اجلاس میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اگر خواتین کو سبز معیشت میں حصہ لینے اور اس کے فوائد حاصل کرنے کے مساوی مواقع فراہم نہ کیے گئے تو ہم زیادہ پائیدار، جامع اور مؤثر ماحولیاتی اور معاشی نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔

اس کانفرنس کا انعقاد ماحولیاتی تبدیلی اور ماحولیات کی وزارت اور ایشیائی پارلیمنٹیرینز فورم برائے آبادی و ترقی (AFPPD) نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، یو این فنڈ برائے آبادی سرگرمیاں، پاتھ فائنڈر، انٹرنیشنل پلانڈ پیرنٹ ہوڈ فیڈریشن (IPPF) اور دیگر بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے کیا گیا ہے ،جس میں 15سے زائد ایشیائی ممالک کے پارلیمنٹیرینز، سفارتی کمیونٹی کے سینئر نمائندے، اعلیٰ سطحی سیاسی شخصیات، سرکاری اہلکار، بین الاقوامی این جی اوز، بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی تنظیموں کے ارکان اور اکیڈمیا نے شرکت کی،بحیثیت مہمان خصوصی قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے بھی کہا کہ سبز معیشت کے اہداف کے حصول کے لئے خواتین کی بااختیاری ہمارے اجتماعی اور پائیدار مستقبل کے لئے بروقت اور لازمی ہے، پارلیمنٹ نے خواتین کی برابری، تولیدی صحت، اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے لئے بے مثال کردار ادا کیا ہے تاکہ ملک کے پسماندہ علاقوں میں رہنے والی خواتین کی زندگی کی مجموعی معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔

وزیر اعظم کے ماحولیاتی تبدیلی کے کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید عالم جو کہ کم از کم ماحولیاتی مسائل پر کافی سنجیدہ نظر آ رہی ہیں اس لیے ماحولیاتی نظام کو بچانے کے لیے آگے آگے ہیں انہوں نے کہا کہ سبز معیشت محض ایک ماحولیاتی منصوبہ نہیں ہے یہ پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے ساتھ ماحولیاتی خطرات کو کم کرنے کی طرف ایک تبدیلی کا نقطہ نظر ہے،انہوں نے خبردار کیا کہ یہ تبدیلی سماجی عدم مساوات، خاص طور پر خواتین کی برابری کے مسائل کو حل کئے بغیر نامکمل رہے گی، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ خواتین ماحولیاتی خرابی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ پائیدار ترقی کے لئے تبدیلی کے طاقتور ایجنٹ ہیں، وزیر اعظم کی ماحولیاتی معاون نے زور دیا کہ خواتین کی برابری نہ صرف انسانی حقوق کے بارے میں ہے بلکہ یہ پائیدار ترقی کا ایک ستون ہے۔ جب خواتین کو تعلیم، وسائل اور فیصلہ سازی کی طاقت تک رسائی حاصل ہوتی ہے، تو اس کے فوائد معاشرے میں وسیع پیمانے پر پھیلتے ہیں۔ تحقیق مستقل طور پر دکھاتی ہے کہ جب خواتین بااختیار ہوتی ہیں، تو معاشرے زیادہ مضبوط، معیشتیں زیادہ مستحکم اور ماحول بہتر طور پر محفوظ ہوتا ہے. انہوں نے مزید کہا پاکستان میں ہم پارلیمنٹیرینز کو یہ یقین دہانی کرانے کے لئے کوشاں ہیں کہ ہماری پالیسیاں اس فہم کی عکاسی کرتی ہیں۔ ہم یہ بھی پرعزم ہیں کہ تمام ماحولیاتی پالیسیوں اور کارروائیوں میں خواتین کی شمولیت کو شامل کریں، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ خواتین کی قیادت اور شرکت ہمارے ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لئے اہم ہیں۔

جاپان کے وزیر مملکت برائے تعلیم، ثقافت، کھیل، سائنس اور ٹیکنالوجی توشیکو آبی سان نے کہا کہ جاپان نے سبز معیشت کو آگے بڑھانے میں خواتین کی بااختیاری کی اہمیت کو تیزی سے تسلیم کیا ہے۔اگرچہ ملک نے خواتین کی برابری میں چیلنجز کا سامنا کیا ہے، مگر ماحولیاتی اور اقتصادی پالیسیوں میں خواتین کی شمولیت کو شامل کرنے کے لئے اہم اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، جاپانی وزیر مملکت نے مزید کہا کہ جاپان کی "ویمنومکس" اقدام نے معیشت کی ترقی کے لئے خواتین کی ورک فورس میں شرکت بڑھانے کا ہدف مقرر کیا۔ اگرچہ یہ اقدام بنیادی طور پر اقتصادی بااختیاری پر مرکوز تھا، اس کے اصولوں کو سبز معیشت میں توسیع دی جا رہی ہے، جیسے قابل تجدید توانائی اور پائیدار ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خواتین کی شمولیت کو فروغ دینا ہے ۔

یو این ایف پی اے پاکستان کی نائب نمائندہ لتیکا ماسکی پرادھان نے کہا کہ آئی سی پی ڈی کے عمل پروگرام پر پیش رفت کے باوجود، خواتین اور لڑکیاں مختلف پہلوؤں میں امتیاز، تشدد اور محدود مواقع کا سامنا کرتی ہیں، خاص طور پر تعلیم، روزگار اور فیصلہ سازی کے معاملات میں انہیں تسلیم نہیں کیا جاتا، 

پاتھ فائنڈر انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر تابندہ سروش نے کہا کہ دو روزہ علاقائی کانفرنس خواتین کی سماجی و اقتصادی بااختیاری کے لئے پالیسی سازی اور متعلقہ قوانین کے نفاذ کے ذریعے سبز معیشت کے ایجنڈے میں خواتین کی شمولیت کو موثر طور پر آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو گی اور یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین، لڑکیاں اور کمزور کمیونٹیز غربت، تعلیم اور صحت کی خدمات کی کمی اور ماحولیاتی بحران کے اثرات سے لڑنے کی صف اول پر ہیں۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم بااثر افراد اور فیصلہ سازوں کے طور پر ماحول اور ماحولیاتی تبدیلی کی پالیسیوں میں خواتین کی برابری اور با اختیاری کی ضرورت پر زور دیں، انہوں نے مختلف ایشیائی ممالک کے پارلیمنٹیرینز سے درخواست کرتے ہوئے کہ وہ اپنی سیاسی مرضی اور دانشمندی کا استعمال کرتے ہوئے خواتین کی برابری اور بااختیاری کے لئے پالیسیاں اور متعلقہ قوانین کے نفاذ کو آگے بڑھائیں، انہیں مطلوبہ تعلیم، صحت، روزگار اور ہنر کی ترقی کے مواقع فراہم کریں۔

جس طرح خواتین کے لیے اس کانفرنس میں بات کی جا رہی ہے امید تو یہی ہے کہ خواتین کو انکے حقوق سے محروم نہیں رکھا جائے گا، دنیا کے بیشتر ممالک کا ایک ساتھ بیٹھ کر ان مسائل کو اجاگر کرنا ان پر گفتگو کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملکی ترقی کے لیے خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں انکی مدد کرنی ہوگی انہیں ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہوگا کہ وہ آزادانہ اپنا نمایاں کردار ادا کر سکیں،، خواتین کی شمولیت سبز معیشت کو مضبوط اور پائیدار بنا سکتی ہے، کیونکہ ان کے مختلف تجربات اور نقطہ نظر معاشرتی اور اقتصادی مسائل کے حل میں نئی جہتیں لا سکتے ہیں۔ ان کی فعال شرکت ماحولیاتی تحفظ کی جانب ایک مضبوط قدم ہے، جس سے نہ صرف ماحول بہتر ہو سکتا ہے بلکہ سماجی و اقتصادی ترقی بھی ممکن ہو سکتی ہے۔دعاؤں میں یاد رکھیں اور خواتین کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ سبز معیشت میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

دیگر کیٹیگریز: بلاگ
ٹیگز: