اپنے آفس کی جانب سے آج کراچی جانے کا اتفاق ہوا، دماغ میں لاہور سے عازم سفر ہونے کے ساتھ ہی یہ تصور ابھر رہا تھا کہ ایک گھنٹہ چالیس منٹ کا یہ سفر کیسے گزرے گا۔ میرے ہمسفر ذین العابدین نے تو ائرپورٹ پر ہی اعلان کر دیا کہ میں تو نیند لوں گا، اُن کی اس بات نے مزید پریشان کیا کہ ایک گھنٹہ چالیس منٹ کی اس فلائیٹ میں وقت کیسے گزرے گا لیکن اللہ پاک کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے جو ہماری توقعات سے ہٹ کر اور بڑھ کر ہوتا ہے اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی سین ہوا میرے برابر کی سیٹ پر ایک فرشتہ بولنے والی مشین کے طور پر آبیٹھا اور بیٹھتے ہی اس نے پکے لاہوری انداز میں بنا کسی تعارف کے سوال جڑ دیا کہ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب اسمبلی توڑ دیں گے؟ مجھے خوشگوار سی حیرت ہوئی کہ چلیں ایک ایسا مسافر تو ملا جو صرف بات کرنا چاہتا ہے اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ میں کون ہوں کیا کرتا ہوں اور میرے سیاسی نظریات کیا ہیں۔
یہ لاہور میں شاد باغ کے رہائشی نوجوان راشد لطیف تھے، 30 سالہ یہ نوجوان وراثت میں ملا ایک یونٹ چلا رہا ہے (یہ تعارف گفتگو اور سفر کے اختتام پر ہوا)۔ میں نے بھی بنا تعارف نوجوان کے سوال کا جواب کچھ خفگی کے انداز میں دیا اور کہا کہ نہیں پرویز الہیٰ اسمبلی نہیں توڑیں گے، میرے جواب پر وہ کچھ کھسیانہ سا ہوا اور بولا عمران خان تو اعلان کر چکے ہیں ؟ یہاں مجھے اندازہ ہوا کہ یہ بھولا بھالا نوجوان سیاست میں دلچسپی تو رکھتا ہے مگر واجبی سی سو میں نے اسے کہا کہ بھائی عمران خان نے اعلان کیا ہے پرویز الہیٰ نے نہیں وہ تو چار ماہ کا وقت مانگ رہے ہیں اور یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اپنی یہ تجویز بھی ایک ٹی وی شو میں انٹرویو کے انداز میں حاصل کیے گئے وقت میں پیش کی وہ اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے ہیں، یہ بات واضع ہے۔
نوجوان کی مایوسی میں کچھ مزید اضافہ ہوا تو بولا بھائی جی ملک میں انتخابات ہونے چاہیں عمران خان کو ہٹایا نہ جاتا تو ملک ترقی کر جاتا انڈسٹری چل جاتی، عمران خان ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کر رہا تھا میں ایک پیداواری یونٹ کا مالک ہوں جو مختلف کمپنیوں کے لیے نٹ بولٹ بناتا ہے اس لیے مجھے پتہ ہے کہ اس دور میں کاروبار چلانا کتنا مشکل ہے، انڈسٹریل یونٹ بند ہو رہے ہیں ڈالر کو روکنے کے لیے سامان باہر سے نہیں منگوانے دیا جا رہا اس لیے واحد راستہ جو بڑی انڈسٹریز کے پاس رہ گیا ہے وہ یہ ہے کہ مال سمگل کرالیا جائے، دیکھیں بھائی اس سے تو ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ہم نقصان میں رہیں گے یہ بات اسحاق ڈار کو سمجھ نہیں آئے گی چھوٹا طبقہ کھانا کھائے گا تو بڑی انڈسٹری چلے گی چھوٹے چھوٹے یونٹس بند ہوئے تو نظام ہی سارا ختم ہوجائے گا ہمیں اپنا معاشی نطام مزدور اور دیہاڑی دار کو دیکھ کر بنانا چاہیے لیکن ہم اس کے الٹ چلتے ہیں اور اپنے نطام میں بڑی انڈسٹری والوں کو دیکھ کر ترامیم کرتے ہیں۔
وہ بول رہا تھا اور ہم دونوں سُن رہے تھے، راشد نے مزید کہا کہ دیکھیں جی لاہور سے راولپنڈی تک چلے جائیں، اندسٹری بند اور پلاٹون کا کا کام ذیادہ ہو رہا ہے اس طرف توجہ دیں لوگ اربوں روپے زمین میں دبا رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ اُن کا پیسہ محفوظ اور دگنا ہوجائے گا اس کی الیسی ہونی چاہیے، چین انڈیا اور امریکہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان میں اندسٹری چلے ہم یہاں اپنے کاریگروں کو بھوکا رکھ کر ملک کی معیشت کو نہیں چلا سکتے یہ اسمبلی ختم کر کے نئے الیکشن کرانے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت آئے اور بہتر پالیسی بنائے۔
راشد نے اپنی بات میں کچھ وقفہ دیا تو میں نے کہا ایک جان بھائی آپ عمران خان کی حکومت کو ختم نہ کرنے اور وقت پورا کر دینے کی بات کر رہے تھے اور اب ایک اور آئنی حکومت کو گرانے کی بات کر رہے ہو، آپ انڈسٹری کے چلنے کی بات کر رہے ہو تو کیا آپ کو پتہ ہے کہ سی پیک جسے منصوبوں کو عمران کے دور میں سست روی کا شکار کیا گیا، اُس میں کون کون سی ٹیکنالوجی پاکستان کو ٹرانسفر ہونا تھی، عمران دور کو جو آپ بہتر سمجھ رہے ہیں اُس میں کوئی ایک بڑا پراجیکٹ بنا ہو تو بتائں روزگار تو بڑے پراجیکٹ پر کُھلا کرتے ہیں، پراپرٹی بزنس کو جسے آپ غلط خیال کر رہے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس سے پاکستان کی بڑی چھوٹی 48 اندسٹریز میں روزگار نکلتا ہے ساڑھے تین سال میں عمران خان صاحب کا کوئی ایک کارنامہ تو بتائیں کہ انہیں دوبارہ آنا چاہیے، کیا اُن کے دور میں توشہ خانہ سے لیکر مال خانے تک ان کے دوستوں کو نوازا نہیں گیا ہم سب پریشان ہیں، پیٹرول ہم نوکری پیشاوں کو زیادہ تکلیف دیتا ہے آپ اپنے یونٹ کو بچانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں اور ہم اپنے ایک سے دوسرے وقت کے کھانے کے حصول کی تگ و دو میں ہیں اور راشد بھائی ہمیں یہ بتائیں کہ ہم ساڑھے تین سال کو بھول کر صرف ان چھ ماہ میں تباہ ہوئے ہیں ؟
راشد لطیف کے پاس بولنے کو کچھ نہ رہا تو بولا نہیں جی مشرف کا دور سب سے بہتر تھا اتنی مہنگائی نہیں تھی یہ بات ہمیشہ مجھے خیران کُن لگتی ہے سو میں نے انہیں کہا اس حساب سے تو انگریز کا دور اچھا تھا بزرگ کہتے ہیں آنہ سیر گوشت ہوا کرتا تھا اور مغل دور میں تو کوڑیوں کے بھاؤ تھا اس پر کیا کہیں گے بولا بھائی آپ کرتے کیا ہو یہ وہ وقت تھا جب میں نے اپنا تعارف کرایا لیکن بظور صحافی نہیں ایک نجی ادارے کے ملازم کی حثیت سے اُس سے اسکا تعارف جانا اور یوں ہماری ملاقات مکمل ہوئی، اُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں اصل میں بہت چھوٹی عمر میں کاروبار میں آگیا، چھوڑیں بھائی آئیں موبائل پر فلم دیکھتے ہیں میں نے گھڑی دیکھی تو کراچی پہنچنے میں ابھی 20 منٹ باقی تھے اس نے اپنے موبائل پر وار کرافٹ نامی فلم لگائی اور یوں باقی کا سفر تمام ہوا اس ایک گھنٹہ چالیس منٹ مین مجھے یہ سمجھنے کا موقعہ ملا کہ ہمارے نوجوانوں کے ذہن میں پاکستان کی معیشت کے حوالے سے کیا درست اور کیا صحیع چلا رہا ہے راشد لطیف نے میرے سفر کو آسان بھی بنایا اور پُر لطف بھی شکریہ راشد