نوازشریف کی نااہلی ختم؟عمران خان تاحیات نااہل؟گرین سگنل مل گیا

Dec 12, 2023 | 10:07:AM

Read more!

کہا جاتا ہے کہ جب قدرت مہربان ہو تو دنیا کے ہر شے آپ کے حق میں جانا شروع ہو جاتی ہے۔ لمبے عرصے تک زیر عتاب رہنے والے نواز شریف کو آج کسی اور تاحیات نا اہل ہونے والے فرد کی درخواست کی سماعت کے دوران ایسا ریلیف ملا ہے جس کو لیکر ابھی تک بہت سے ابہام موجود تھے ۔ان کی اپنی پارٹی ہی اس حوالے سے گو مگو کی کیفیت کا شکار تھی اور خود نواز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ ریلیف لینے کے العززیہ کیس میرٹ پر لڑ رہے ہیں ۔یہ ریلیف تاحیات نا اہلی سے متعلق ہے۔آج میربادشاہ قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے واضع کیا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی چلےگی یاسپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے جب کہ تاحیات نا اہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔جب تک فیصلہ نہیں ہوتا تب تک الیکشن ایکٹ کو لاگو سمجھا جائے گا۔پیر کوسپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے میربادشاہ قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے تاحیات نااہلی کی مدت تعین کا معاملہ لارجزبینچ میں مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجوادیا۔ عدالت نے کہا کہ موجودہ کیس انتخابات میں تاخیر کے آلےکے طورپراستعمال نہیں کیاجائےگا، موجودہ کیس کا نوٹس انگریزی کے دوبڑے اخبارات میں شائع کیاجائے۔ سماعت کے دوران تاحیات نااہلی سے متعلق پاناما کیس اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم زیر بحث آئیں جس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے، اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ لائیو ایشو کیسے ہے؟ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟ اس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ میربادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں نااہل کیا گیا لیکن ہائیکورٹ نے 2018 کے انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی، میربادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے توتاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ اس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی پرکاغذات نامزدگی جمع کرانے والےکو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پرپاناماکیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی پر دو آرا ہیں، نیب کیسز میں اگر تاحیات نا اہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟ اس پر وکیل درخواستگزار نے کہا کہ قتل کے جرم میں بھی سیاستدان کو نااہلی 5 سال ہی کی ہوگی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ وکیل درخواستگزار نے بتایا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال کردی گئی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کرکے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ غیر مؤثر ہوچکا۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کیں، جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئیں تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرےگا، الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نااہلی کا تصور ختم ہوگیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابات سر پر ہیں، ریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصارکریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پر آئین خاموش ہے، آرٹیکل 63 ون جی میں پاکستان کی تباہی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے، آرٹیکل 63 ون ایچ میں اخلاقی جرائم پرنااہلی 3سال ہے، اصل نااہلی تو آرٹیکل 63 میں ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کی تباہی کرنے والےکو دوبارہ سیاست میں آناہی نہیں چاہیے مگرپاکستان کی تباہی کرنے والےکی نااہلی بھی 5 سال ہے، آئین کی زبان کو دیکھنا ہوتا ہے، ہر چیز آئین میں واضح درج نہیں، جو آئین میں واضح نہیں آسکی سپریم کورٹ تشریح کرسکتی ہے وضاحت نہیں، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کےسامنے نااہلی کی مدت کا معاملہ نہیں تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی، دونوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ کی قانون سازی چلےگی یاسپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے، ایک طرف سپریم کورٹ کافیصلہ ہے دوسری جانب قانون، آراوکس پر انحصار کرے گا؟ انتخابات آگئے ہیں مگر کسی کو پتانہیں وہ الیکشن لڑےگا یا نہیں، تاحیات نا اہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کےفیصلے میں سےکسی ایک کوبرقراررکھناہوگا۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی 5سال ہے تو نماز نہ پڑھنے یاجھوٹ بولنے والےکی تاحیات نااہلی کیوں؟ عدالت نے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلزکو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 24 جنوری تک ملتوی کردی۔

پیر کا فیصلہ نواز شریف کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے ۔اب نہ صرف ان کے الیکشن لڑنے کے لیے تمام رکاوٹیں دور ہو چکی ہے بلکہ اب انہیں اپنے کیسز کو منطقی انجام تک پہچانے کے لیے بھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا پڑے گا۔ کچھ روز قبل تک ان پر یہ تلوار بدستور لٹکتی محسوس ہور ہی تھی جس کے بعد العزیزیہ کیس پر عدالت میں میرٹ پر دلائل دینے کے حکم نے نواز شریف کو کافی مضرب کیفیت میں مبتلا کیا گیا تھا۔جس کی جھلک ہمیں گزشتہ چند روز میں ان کے بیانات اور دوبارہ سے احتساب کا بیانیہ اجاگر کرنے سے ملتی ہے۔وہ چند دنوں سے 2017 میں مجھے کیوں نکالا کے نعرے سے نکل 1993،اور 1999 میں اپنی حکومت ختم کرنے کے وجوہات پوچھتے پائے گئے ہیں ۔ انہوں نے مختلف مواقع پر اپنے خطاب میں یہ بات پوچھی کہ ہم نے ہمیشہ ملک و قوم کی ترقی والے کام کیے لیکن ہر دفعہ ہمیں نکال دیا گیا۔کیوں نکال دیا گیا مجھے پتہ لگتنا چاہیے؟۔ 1993 میں کیوں نکالا گیا۔ مجھے پتہ لگنا چاہیے 1999 میں کیوں نکالا گیا۔ ہم نے کہا کارگل میں لڑائی نہین ہونی چایہے تھی اس لیے نکال دیا۔

مزیدخبریں