حکومت ،پی ٹی آئی مذاکرات،کون کس سے منہ چھپارہا ہے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(اظہر تھراج)حکومت ہو یا پھر پی ٹی آئی دونوں فریق اِس وقت فرار کیلئے ’محفوظ راستہ‘چاہتے ہیں ،کیونکہ دونوں اس وقت اس بھنور میں پھنس چکے ہیں جہاں سے یہ دونوں فریق ہی ایک دوسرے کو ریسکیو کرسکتے ہیں،دونوں فریق مذاکرات کیلئے مان گئے ہیں مگر ابھی تک مذاکرات شروع نہیں ہوسکے،کون کس سے منہ چھپا رہا ہے؟
نا چاہتے ہوئے بھی مذاکرات کرنا حکومت اور تحریک انصاف کی مجبوری بن گئی ہے ۔ظاہر ہے تحریک انصاف نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا ہے ،اگر پی ٹی آئی سول نافرمانی کی تحریک اور اِس سے بڑھ کر احتجاجی مظاہرے کرتی ہے تو حکومت جو پہلے ہی 26 نومبر کو ڈی چوک میں ہونے والے کریک ڈاؤن پر وضاحتیں دے رہی ہے وہ کسی انتشار کی وجہ سے مزید مشکل میں آسکتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔یہاں تک کہ وہ اپنے رویے میں لچک دکھاتے ہوئے پی ٹی آئی کے سیاسی قیدیوں کی رہائی پر بات کرنے سمیت،پی ٹی آئی کے دعوے کے بقول ڈی چوک میں ہونے والی ہلاکتوں پر تحقیقات کرنے کو بھی تیار ہے۔
حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے تیار ہے تاکہ ملک میں کشیدگی کی فضاء کو کم کیا جاسکےجبکہ تحریک انصاف کی بات کی جائے تو اُس کیلئے مذاکرات اِس لئے ضروری ہے کیونکہ اُس کو یہ یقین نہیں کہ اُس کی سول نافرمانی کی تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں ،اگر تحریک کامیاب نہیں ہوتی تو پی ٹی آئی کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں اور اب ذرائع کے مطابق پارٹی اختلافات کے باعث بانی پی ٹی آئی نے خود سول نافرمانی کی کال دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں پارٹی قیادت کی سول نافرمانی کی کال پر منقسم آرا سے متعلق آگاہ کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے ناراضی کا اظہار کی۔
بانی پی ٹی آئی کا سول نافرمانی کی کال دینے اور ترسیلات زر کے بائیکاٹ پر سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہنا تھا کہ بیرون ملک پاکستانی میری کال پر لبیک کہیں گے اور جسے اس پالیسی سے اختلاف ہے وہ پارٹی چھوڑ سکتا ہے۔یعنی پارٹی کی تقسیم کی وجہ سے سول نافرمانی کی تحریک ناکام ہوسکتی ہے اور اِس بات کا پی ٹی آئی کو بھی خدشہ ہے ۔
دوسرا نکتہ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے کیسز میں جو ریلیف مل رہا تھا وہ اب رُک گیا ہے ،اب بانی پی ٹی آئی کیخلاف ملٹری ٹرائل چلنے کی باتیں بھی زیر گردش ہیں اور توشہ خانہ ٹو کیس میں سپیشل کورٹ سینٹرل ون اسلام آباد نے بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی پر فرد جرم بھی عائد کردی ہے۔اب یہ سارے محرکات پی ٹی آئی کو اِس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ مذاکرات کریں ۔اور یہی وجہ ہے کہ اب تحریک انصاف جو پہلے صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی تھی وہ اب حکومت سے مذاکرات کیلئے تیار ہے ۔
ضرورپڑھیں:حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کو دھچکا،عمران خان نے پھر 2 مطالبات رکھ دیئے
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پی ٹی آئی سے کسی قسم کے مذاکرات یا بات چیت سے انکاری نظر آ رہی ہےگو کہ حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات کیلئے ایاز صادق پُل کا کردار ادا کریں گے ۔لیکن وزیر اطلاعات عطا تارڑ کہتے ہیں کے حکومت کے کسی سے مذاکرات نہیں ہورہے۔پی ٹی آئی کی بات پر کون یقین کرے گا ۔دوسری طرف طلال چودہری مذاکرات کیلئے مائنس بانی پی ٹی آئی کی بات کر رہے ہیں ۔
اب حکومت کی طرف سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ تحریک انصاف جو حکومت کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارہ نہیں کرتی تھی اب وہ مذاکرات کیلئے ترلے منتیں کر رہی ہے ۔اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ روز یہ خبر گرم ہوئی کہ اسد قیصر کی اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی لیکن بعد میں اسد قیصر نے اِس ملاقات کی تردید کردی تھی ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر یہ خبریں پھیلائی جارہی ہیں کہ تحریک انصاف مذاکرات کرنا چاہتی ہے ۔بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ اگر تحریک انصاف حکومت سے مذاکرات کیلئے تیار ہوگئی ہے تو اُس کا مطلب یہ ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دےد یا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات میں پی ٹی آئی کیا کچھ حاصل کرتی ہے اور حکومت اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کتنا کامیاب ہوتی ہے۔اگر مذاکرات ناکام بھی ہوتے ہیں تو تحریک انصاف کو کم از کم اِتنا وقت مل جائے گا کہ وہ اپنی اگلی حکمت عملی پر کام کرسکے اور دوسری جانب حکومت کو مذاکرات کے ذریعے تحریک انصاف کا ذہن پڑھنے کا بھی موقع مل جائے گا۔