جہانگیر خان ترین اس مرتبہ قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں ملتان اور لودھراں سے ہار گئے، ان کی شکست نے صرف انہیں ہی نہیں بلکہ ان کی نووارد استحکام پاکستان پارٹی کو بھی نقصان پہنچایا ہے، وہ جو کسی وقت جوڑ توڑ کے بادشاہ سمجھے جاتے تھے اور ان کی سیاست حکومتیں بنانے میں مشہور تھی آج اتنی سمٹ گئی ہے کہ ان کی آئندہ سیاست پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں، اگر لیڈر ہار جائے تو پھر اس کی خود اعتمادی بھی چھن جاتی ہے ان کے لیے آئندہ کے کسی سیاسی کردار کا تعین بھی کیا جاتا ہے تو پھر بھی ان کے لیے مشکلات ہوں گی۔
انہوں نے ملتان کے حلقہ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا اور آگے کیا ارادے تھے یہ سوالات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن انتخابی نتائج نے ان کی سیاست کا رخ موڑ دیا جاتا ہے، عمومی طور پر اہم سیاسی رہنما اور پارٹیوں کے قائد ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن اس لیے لڑتے ہیں کہ اگر وہ کسی حلقے سے ہار بھی جائیں تو بھی ان کا اسمبلی میں جانا یقینی ہو، اب جاہنگیر خان ترین کا دو محفوظ حلقوں سے ہار جانا اور مسلم لیگ کے سپورٹ کے باوجود شکست سے دوچار ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، ان کے بڑے عزائم رکھنے والی جماعت بھی دو حلقوں کی جیت تک محدود ہے اور اب اس جماعت کی سیاست پر بھی شخصیات کی اجارہ داری نظر آئے گی، منقسم مینڈیٹ میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
جہانگیر خان ترین کاروباری دنیا کے کھلاڑی ہیں جو سیاست میں آئے تو یہاں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے، تین مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، بانی پی ٹی آئی کا دایاں بازو بن گئے، 2018 کے انتخابات کے بعد مرکز اور پنجاب حکومت کی تشکیل میں ان کا اہم کردار رہا، باہر سے تعلیم حاصل کی اور امریکا کی یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ استاد رہے بنکر بھی بنے اور پھر والد کی طرف سے ملنے والی زمین پر کاشتکاری کا آغاز کیا اور اسے ایک زرعی ریاست میں بدل دیا، شادی سیاسی خاندان میں ہوئی اور مخدوم حسن محمود کے داماد بنے، یہاں سے سیاست کا شوق پیدا ہوا ، شوگر ملیں بھی لگائیں لیکن سیاست میں بھی بڑا نام کمایا، ہر حکومت کے ساتھ قریبی تعلق بنا اور مقتدرہ حلقوں میں پسندیدہ شخصیت کے طور پر ابھرے، 2024 کے انتخابات سے قبل انہوں نے اپنی سیاسی ریاست کو وسعت دینی چاہیے اور اپنی الگ سیاسی جماعت قائم کرلی، منشور دیا اور مسقبل میں بہت اہم کردار نبھانے کے دعوے کیا لیکن منظر بدل گیا اور منظر ایسا بدلا کہ اب شاید جہانگیر خان ترین کو اپنی پوری سیاست پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
حالیہ الیکشن میں جہانگیر خان ترین نے اپنے سابقہ حلقہ لودھراں سے امیدوار بننے کا فیصلہ کیا اور پھر ملتان سے بھی امیدوار بن گئے، وہ ملتان سے الیکشن لڑنے کے اسلیے خواہش مند تھے کہ یہاں ان کا پرانا گھر ہے ان کے والد اسی حلقے میں رہتے تھے ان کے خاندان اور پٹھان برادری بڑی تعداد میں یہاں موجود ہے اور ان کی خان برادری نے انہیں خوش آمدید کہا اور اچھی پذیرائی بھی ملی، انہوں نے مسلم لیگ ن سے ایک چھوٹا انتخابی اتحاد بھی کیا جسے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا نام دیا جاتا ہے، انہوں نے کوشش کی مسلم لیگ ان کے لیے لودھران اور ملتان کی دونوں سیٹیں چھوڑ دے اور یہاں اپنا امیدوار نہ کھڑا کرے ان کی اس خواہش کو جزوی طور پر مانا گیا، ملتان کے حلقے میں مسلم لیگ نے اپنے امیدوار کو ہٹاتے ہوئے صوبائی حلقے پر ایڈجسٹ کردیا اور مسلم لیگ ن یہاں جہانگیر خان ترین کی انتخابی اتحادی ہوگئ، البتہ لودھراں کی سیٹ پر مسلم لیگ ن نے اپنا امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کردیا، اس طرح مسلم لیگ ن ملتان میں جہانگیر ترین کی اتحادی اور لودھراں میں سیاسی حریف تھی اس فارمولے کے تحت ہونے والا یہ اتحاد غیر فطری تھا، لودھراں میں جہانگیر ترین مسلم لیگ کے خلاف خطاب کرتے اور ملتان میں ان کے حق میں، اس غیر فطری اتحاد کو مسلم لیگ کے کارکن اور مقامی قیادت نے قبول نہیں کیا پارٹی قیادت کی ہدایت پر مقامی قیادت نے یہ سب بادل ناخواستہ قبول کرتے ہوئے جہانگیر خان ترین کی حمایت کا اعلان تو کیا لیکن یوں لگتا ہے کہ ووٹ ڈالتے ہوئے مقامی لیگی کارکنوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار ووٹ ڈالتے ہوئے کیا، مسلم لیگ کی مقامی قیادت یہ کہتے ہوئے نظر آئی کہ اگر پارٹی قائدین نے یہ فیصلہ کرنا ہی تھا تو ان ذریعے کرایا جاتا ان کو اعتماد میں لیا جاتا لیکن یہ فیصلہ مسلط کیا گیا، ماضی میں جب مخدوم جاوید ہاشمی پی ٹی آئی کے خلاف اسمبلی میں تقریر کرکے اسے چھوڑ آئے تھے تو مسلم لیگ کے ساتھ پھر تعلق استوار کیا تھا اور ملتان کے اسی حلقے سے مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بنے تھے لیکن مقامی لیگی قیادت نے اس پر بھی خاموش ردعمل ظاہر کیا تھا اور جاوید ہاشمی ہار گئے تھے حالانکہ اس وقت لیگی قیادت نے الیکشن کے اخراجات کے وافر فنڈز فراہم کیے تھے اب بھی وسائل تھے لیکن جہانگیر ترین ہار گئے لگتا ہے کہ انہیں اپنی ہی اتحادیوں کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے اور لودھراں میں تو واقعی اتحادیوں کے ہاتھوں ہی انہیں شکست ہوئی ہے ڈیرہ داری کی سیاست جیت گئی ہے۔
نوٹ(یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں ، ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں )
ڈاکٹر امجد علی بخاری ۔ صحافی تجزیہ کار، کالم نگار، اینکر 4 کتابوں کے مصنف، ہزاروں مضامین مختلف قومی اخبارات میں شائع ہوئے، تحقیقی مقالے مختلف مقامی اور بین الاقوامی جرائد میں شامل ہوئے، مختلف قومی اداروں کے ایڈیٹر رہے، متعدد یونیورسٹیز میں سینکڑوں لیکچر دیے، پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام میں صنفی تفاوت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی