(24 نیوز) پاکستان میں ذریعۂ تعلیم کے حوالے سے ایک دیرینہ بحث جاری ہے کہ آیا انگریزی زبان کو مسلط کرنا ملک کے تعلیمی و ترقیاتی اہداف کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں۔ کئی ممالک، جیسے چین، جرمنی، جاپان، اور فرانس، اپنی قومی زبان میں تعلیم دے کر ترقی کی منازل طے کر چکے ہیں، جبکہ پاکستان میں اکثریتی طلبہ پر انگریزی زبان کو مسلط کردیا۔
پاکستان قومی زبان تحریک کی رہنما فا طمہ قمر نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جو طلباء چین' جاپان' فرانس' جرمنی جاکر ان کی زبان سیکھ کر اعلی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں کیا وہ طلباء برطانیہ جاکر وہاں کی زبان نہیں سیکھ سکتے؟ تو پھر صرف آدھے فی صد سے کم طلباء کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پاکستان 99 فیصد طلباء پر انگریزی کو مسلط کیوں کیا گیا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ ان پاکستانیوں کا جینا' مر نا خوشی غم سب پاکستان ہی سے وابستہ ہے تو ان کا ذریعہ تعلیم ان کی اپنی رابطے کی زبان میں کیوں نہیں ؟ جب کہ پوری دنیا چین فرانس ' ترکی ایران کوریا ' جرمنی جاپان سب اسی اصول پر عمل کررہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں پاکستان کا پورا نظام تعلیم صرف انگریزی زبان سیکھنے اور انگریزی کی گتھیاں سلجھانے میں لگا ہوا ہے علم پاکستان کے طلباء تک پہنچ ہی نہیں رہا! ہر حکومت انگریزی سکھانے پر کثیر سرمایہ خرچ کرتی ہے لیکن آج تک اس نتیجہ صفر ہی رہا' انگریزی سیکھنے پر جتنا سرمایہ خرچ کیا گیا ہے۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ اگر اردو سیکھنے پر خرچ کرتے تو آج پاکستان دنیا کی صف اول کی عالمی طاقت ہوتا! اب موجودہ وزیر اعلیٰ نے بھی سابقہ حکومت کی طرح تعلیمی اداروں میں "سپوکن انگلش" کورسز کے اجراء کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ قوم "سپوکن انگلش" سیکھ کر لیا خلا سے رابطہ کرے گی جب کہ یہاں کی عوامی زبان اردو اور پاکستانی زبانیں ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ پاکستان کی ترقی خوشحالی یکجتی سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے فی الفور ذریعہ تعلیم اردو کیا جائے انگریزی چینی جاپانی فارسی عربی فرنچ ڈچ اسی طرح کی 20 ، 30 غیر ملکی زبانوں کے گروپ بنادئیے جائیں جہاں بچوں کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق غیر ملکی زبانیں سیکھنے کے مواقع فراہم کیئے جائیں اسی صورت میں پاکستان عالمی گاؤں کا حصہ بنے گا ' دنیا میں صرف امریکہ و برطانیہ ہی نہیں ہیں اور بھی ممالک ہیں جن سے پاکستان نے اپنے رابطے استوار کرنے ہیں!